کتاب: فتاویٰ اصحاب الحدیث(جلد 1) - صفحہ 138
ساتھ سر کا بھی ذکر کردیتے۔البتہ یہ عمل مستحب ضرور ہے۔لوگوں کو اس کی ترغیب بھی دینی چاہیے۔ ان دلائل وحقائق کے پیش نظر صورت مسئولہ میں پگڑی، رومال یا ٹوپی سے سر ڈھانپ کر نماز ادا کرنا سنت نبوی کے زیادہ قریب معلوم ہوتا ہے، نیز اس طرح اسلامی شکل وصورت میں نماز کی ادائیگی اللہ کے ہاں زیادہ اجر وثواب کاباعث ہوسکتی ہے۔(واللہ اعلم بالصواب) سوال۔بشیر احمد بذریعہ ای میل سوال کرتے ہیں کہ ایک آدمی صوم وصلوۃ کا پابند ہے مگر اس کی بیوی بے نماز ہے، کیا ان دونوں کا نکاح جائز ہے، کیا آدمی بے نماز بیوی کے ہاتھ سے تیار شدہ کھانا استعمال کرسکتا ہے، نیز کیا بے نماز کا ذبیحہ جائز ہے، کتاب وسنت کی روشنی میں جواب دیا جائے۔ جواب۔نماز دین اسلام کا ایک اہم رکن ہے،قیامت کےدن بھی حقوق اللہ میں سے اسی کے متعلق سب سے پہلے سوال ہوگا۔ دانستہ نماز چھوڑدینے والے کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:'' کہ بندے اور کفر کے مابین حد فاصل نماز ہے۔''(صحیح مسلم :کتاب الایمان) البتہ متقدمین میں اس کے متعلق اختلاف ہے کہ ترک نماز جیسے سنگین جرم کی نوعیت کیاہے؟اکثر محدثین کا یہ موقف ہے کہ اس مقام پر کفر سے مراد''کبیرہ گناہ '' ہے جسے وہ ''کفر دون کفر'' سےتعبیر کرتے ہیں۔اس بنا پر جواز کی حد تک فتویٰ دیا جاسکتا ہے کہ نمازی پرہیز گار کانکاح بے نماز عورت سے جائز ہے لیکن اسے سمجھانے اور نماز کی تلقین کرنے میں کسی قسم کی کوتاہی نہ کرے۔البتہ (الطيبات للطيبين) کے پیش نظر افضل یہی ہےکہ کسی دین دار اور پابند شریعت عورت کا انتخاب کرے ،اسی طرح جب اہل کتاب کا ذبیحہ استعمال کرنے کی اجازت ہے تو بے نماز کا ذبیحہ کیوں ناجائز ہوسکتا ہے؟بے نماز اگر بسم اللہ اللہ اکبر پڑھ کر ذبح کرتا ہے تو اسے کھانے میں کوئی حرج نہیں ہے، خوامخواہ شبہات میں نہیں پڑھنا چاہیے، بے نماز آدمی کے ساتھ فاسق وفاجر جیسا سلوک کرنا چاہیے، کیوں کہ یہ لوگ انتہائی قابل نفرت ہیں، بامر مجبوری بے نمازعورت کا تیار کردہ کھانا کھایا جاسکتا ہے۔ اختیاری حالات میں پرہیز بہتر ہے تاکہ اس عورت کو اپنے کردار پر ندامت ہو،شاید اس کے ساتھ ایسا سلوک کرنے سے وہ اس جرم سے باز آجائے۔ سوال۔حاصل پور سے میر داد قریشی لکھتے ہیں کہ نماز قصر کتنے میل کے ارادہ سفر پر جائز ہے ؟کیا سفر کی کوئی حد مقرر ہے کہ کم از کم اتنے میل کا سفر ہوتو نماز قصر ادا ہوتی ہے۔نیزکتنے روز تک قیام سفر میں نماز قصر کرنا جائز ہے، کیا دوران سفر میں نماز قصر کی بجائے پوری پڑھی جاسکتی ہے، ایسا کرنا بدعت تو نہ ہوگا ،میں کچھ عرصہ سے بسلسلہ ملازمت لاہور میں مقیم ہوں ،میرا ذاتی مکان میانوالی، بھکر شہر میں بھی موجود ہے اور ذاتی زرعی زمین کسی اور جگہ ہے، اس کی نگرانی کے لئے جانا پڑتا ہے ،کیا ان تمام مقامات پر مجھے قصر پڑھنا ہو گی یا پوری نماز ادا کرنا پڑے گی؟ براہ کرام ان تمام سوالات کا جواب تفصیل سے دیں۔ جواب۔نماز قصر کے لئے مقدار سفر کے متعلق علماء ئے سلف میں خاصا اختلاف ہے، ظاہری حضرات کے نزدیک کسی قسم کی مقدار سفر معین نہیں ہے، ان کے نزدیک ہر سفر میں نماز قصر کی جاسکتی ہے، خواہ سفر کم ہو یا زیادہ ، بعض محدثین ایک دن اور ایک رات کی مسافت پر نماز قصر جائز قرار دیتے ہیں، الغرض رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے متعلق کوئی صریح قولی روایت نہیں ملتی جس سے نماز قصر کے لئے