کتاب: فتاویٰ اصحاب الحدیث(جلد 1) - صفحہ 135
کامیاب وکامران قرار دیا جائے گا ۔اوراگر اس کا معاملہ خراب ہوا تو انسان خسارے میں رہے گا، اگر اس فریضہ میں کچھ کوتاہی ہوئی توسنن ونوافل سے اس کی تلافی کردی جائے گی،اسی طرح دیگر اعمال کا محاسبہ ہوگا۔''(جامع ترمذی :الصلوۃ 413)
نماز میں کمی کے متعلق شارحین نے لکھا ہے کہ وہ معیار ومقدار کے متعلق بھی ہوسکتی ہے اور فرائض وشروط کے بارے میں ایسا ہوسکتا ہے۔دونوں صورتوں میں نوافل وغیرہ سے اس کمی کو پورا کیا جائے گا۔اگر کسی انسان کے نامہ اعمال میں نماز نامی کوئی چیز برآمد ہی نہ ہوئی تو ایسے انسان کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے۔وہ تو احادیث کی صراحت کے مطابق دائرہ اسلام سے ہی خارج ہے، اس کے علاوہ رکعات کی تعداد یا کیفیت ادا کے متعلق اگر کمی کوتاہی ہوئی تو اسے نوافل وسنن سے پورا کیاجائے گا۔جیسا کہ دیگر احادیث میں اس کی وضاحت ہے۔(نسائی :الصلوۃ 467 ،ابن ماجہ الصلوۃ 1425)
عدل و انصاف کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لئے چھوٹے سے چھوٹے عمل کا حساب ہوگا جیسا کہ قرآن کریم میں ہے:'' ہم قیامت کے دن عدل وانصاف کا ترازو قائم کریں گے۔لہذا کسی کی کچھ بھی حق تلفی نہ ہوگی اور اگر کسی کا رائی کے دانہ کے برابر بھی عمل ہوگا تو وہ بھی سامنے لائیں گے اور حساب لینے کے لئے ہم کافی ہیں۔''(21/الانبیاء :47)
مذکورہ حدیث کے آخر میں بھی ہے'' کہ اسی طرح دیگر اعمال کا محاسبہ ہوگا،البتہ ارکان اسلام، نماز، روزہ، حج اور زکوۃ لازمی مضامین کی حیثیت سے ان کا حساب لیاجائے گا۔اگر ان میں انسان ناکام رہا تواسے ناکام ہی قرار دیا جائے گا۔''البتہ حساب وکتاب تو زندگی بھر کے اعمال کا ہوگا تاکہ برسر عام ایک نامراد انسان کی ناکامی کو واضح کیا جائے۔قرآن میں ہے:'' کہ جس نے ذرہ بھر نیکی کی ہوگی وہ اسے دیکھ لے گا اور جس نے ذرہ بھر برائی کی ہوگی وہ بھی اسے دیکھ لے گا۔''(99/الزلزال :7،8)
سوال۔ضلع قصور سے حافظ زکریا دریافت کرتے ہیں کہ دوران نماز سوئے ہوئے آدمی کو دوسرا نمازی بیدار کرسکتا ہے یا نہیں؟
جواب۔دوران نماز سوجانا نماز کی صحت کے منافی ہے، اس کی اصلاح کے لئے اگر کوئی دوسرا نمازی اسے بیدار کرتا ہے تو شرعاً ا س کی گنجائش ہے۔اصلاح نماز کے لئے ایسا کرنے سے نماز میں کوئی خرابی نہیں آتی۔چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رات کو نماز پڑھ رہے تھے کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ آپ کے بائیں جانب کھڑے ہوگئے تو آپ نے اسے پکڑ کر اپنے پیچھے سے اپنی دائیں جانب کھڑا کردیا۔(صحیح بخاری :کتاب الاذان)
لہذا اصلاح نماز کے لئے دوران نماز ایسا کیا جاسکتا ہے۔
سوال۔صوابی سے اکرم نیازی لکھتے ہیں کہ اگر کوئی آدمی نماز کے وقت اپنی شلوار ٹخنوں سے اوپرکرے اور نماز کے بعد عام حالات میں اس کی پروانہ کرے تو کیا اس کا یہ عمل درست ہے؟نیز ننگے سر نماز پڑھنے کی شرعی حیثیت بھی واضح کریں۔
جواب۔سوال سے معلوم ہوتا ہے کہ سائل ٹخنوں کے اوپر کپڑا رکھنے کے متعلق اس غلط فہمی میں مبتلا ہے کہ شاید یہ حکم صرف نماز کے لئے ہے، حالانکہ اس حکم کا تعلق صرف نماز سے نہیں بلکہ مطلق طور پر ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:'' اللہ تعالیٰ اس شخص کی طرف نظر رحمت نہیں کرے گا جو تکبر غرور کرتا ہوا اپنے کپڑے کو ٹخنوں سے نیچے لٹکاتا ہے۔''(صحیح بخاری :کتاب اللباس)
ایک دوسری حدیث کے متعلق کپڑا ٹخنوں سے نیچا کرنے کو تکبر کی علامت قرار دیا گیا ہے جسے اللہ پسند نہیں کرتے۔