کتاب: فتاویٰ اصحاب الحدیث(جلد 1) - صفحہ 133
اگر تم نماز اپنے اپنے گھروں میں پڑھو گے جیسے جماعت سے پیچھے رہنے والا یہ شخص (منافق) اپنے گھر میں پڑھ لیتا ہےتوتم اپنے نبی کی سنت چھوڑ دوگے۔اوراگر نبی کی سنت چھوڑ دو گے تو گمراہ ہوجاؤگے۔''(صحیح مسلم:کتاب المساجد) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:'' کہ مجھے اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے میں نے پختہ ارادہ کیا کہ میں لکڑیاں جمع کرنے کا حکم دوں، پھر اذان کہلواؤں اور کسی شخص کو امامت کے لئے کہوں، پھر ان لوگوں کے گھر جلادوں جو نماز باجماعت میں حاضر نہیں ہوتے۔''(صحیح بخاری :کتاب الاذان) حضرت عبد اللہ بن ام مکتوم رضی اللہ عنہ نابینا صحابی تھے۔انہوں نے اپنے اندھے ہونے کا ثبوت پیش کرتے ہوئے گھر پر نماز پڑھنے کی اجازت طلب کی تورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:'' کیا تم اذان سنتے ہو؟ عرض کیا:جی ہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:''تو پھر نماز باجماعت ادا کرو۔''(صحیح مسلم :کتاب المساجد) ایک شخص نابینا ہے اسے تو گھر میں نماز ادا کرنے کی اجازت نہیں ملی۔ہم لوگ جو آنکھ رکھتے ہیں، اذان بھی سنتے ہیں ،صرف دنیاوی کاروبار کی خاطر نماز دوکان پر پڑھ لیں اور باجماعت ادا نہ کریں۔قیامت کے دن ہمارا کیا حال ہوگا۔اس لئے ضروری ہے کہ نماز باجماعت ادا کی جائے۔حدیث میں ہے:'' نماز باجماعت سے سوائے کھلے منافق کے کوئی پیچھے نہیں رہتا ،بیمار بھی دو آدمیوں کے سہارے نماز ادا کرنے کے لئے صف میں کھڑا کیاجاتا تھا۔''(صحیح مسلم) نمازوں کو ناگزیر قسم کے حالات اور شدید مجبوری کی صورت میں تو جمع کیا جاسکتا ہے۔جیسا کہ سفر ،خوف ،بیماری، بارش اور سخت آندھی یا اور کوئی ہنگامی ضرورت کے وقت دو نمازیں جمع کی جاتی ہیں ۔تاہم شدید ضرورت کے بغیر دو نمازوں کو جمع کرناجائز نہیں جیسے کہ کاروباری لوگوں کا عام معمول ہے کہ وہ سستی یا کاروباری مصروفیت کی وجہ سے ایسا کرلیتے ہیں، یہ صحیح نہیں بلکہ سخت گناہ ہے، بعض صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے منقول ہے کہ عذر کے بغیر نمازوں کو جمع کرنا کبیرہ گناہ ہے۔(بیہقی ؛3/169)ہر نماز کو اس کے وقت پر ہی اد ا کرناضروری ہے۔(واللہ اعلم) سوال۔جب مقامی طور پر کسی وجہ سے دو نمازوں کو جمع کیا جائے تو پہلے اور بعد کی مؤکدہ سنتوں کو پڑھا جائے یا چھوڑ دیا جائے؟ جواب دونمازوں کو کسی معقول سبب کی بنا پر جمع کیا جاسکتا ہے جیسا کہ سفر وخوف 'بارش 'آندھی'بیماری'ونقاہت وغیرہ۔لیکن بلا وجہ نمازوں کو جمع کرنا درست نہیں، بلا سبب جمع کرنا کسی حدیث یا کسی صحابی رضی اللہ عنہ کے عمل سے ثابت نہیں ہے۔بلکہ بعض صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے بلاوجہ نمازوں کوجمع کرنا کبیرہ گناہوں میں شامل کیا ہے۔پھر سنن ونوافل کی اہمیت اپنی جگہ مسلم ہے۔لیکن مقیم ہونے کی صورت میں پہلی نماز کے بعد والی سنتیں نہیں پڑھنی چاہئیں، مثلا ظہر اورعصر کو جمع کیا ہے توظہر کی آخری سنتیں اور اگر مغرب وعشاء کو جمع کیا ہے تو مغرب کی دو سنتیں نہ پڑھی جائیں، البتہ عشاء کے بعد کی دو سنتیں اور وتر وغیرہ پڑھنے چاہئیں۔حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کے متعلق حدیث میں آیا ہے کہ انہوں نے بصرہ میں ظہر اور عصر جمع کرکے ادا کیں۔ اور ان کے درمیان کچھ نہ پڑھا ،پھر مغرب اور عشاء کو جمع کرکے پڑھا، ان کے درمیان بھی کچھ نہ پڑھا،نیز آپ نے کسی مصروفیت کی بنا پر ایسا کیا، پھر انہوں نے بیان کیا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مدینہ منورہ میں ظہر اور عصر کی