کتاب: فتاویٰ اصحاب الحدیث(جلد 1) - صفحہ 131
جاؤ،انھیں دین سکھاؤ اور نماز پڑھنے کی تلقین کرو، نیز جس طرح تم نے مجھے نماز پڑھتے دیکھا اسی طرح نماز پڑھتے رہو۔''(صحیح بخاری :کتاب الاذان 631)
یہ حدیث فیصلہ کن ہے کہ مرد اور عورت کے طریقہ نماز میں کوئی فرق نہیں ہے۔ اگر فرق ہوتا توآپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کی وضاحت فرمادیتے۔ ریئس المحدثین امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ حضرت ام الدرداء رضی اللہ عنہا کے متعلق فرماتے ہیں:'' کہ وہ نماز میں مردوں کی طرح بیٹھتی تھیں اور نہایت ہی عقل مند اور دین کی واقفیت رکھنے والی خاتوں تھیں۔''(صحیح بخاری کتاب الاذان 145)
اس اثر سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ نماز کی ادائیگی کے لئے مرد اورعورت میں کوئی فرق نہیں ہے۔
امام نخعی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:''کہ عورت نماز میں بالکل اس طرح بیٹھے جیسے مرد بیٹھتا ہے۔''(مصنف ابن ابی شیبۃ 1/242)
طریقہ نماز کے علاوہ چند ایک چیزوں میں فرق ملحوظ رکھاگیا ہے۔مثلاً:
( دوران نماز عورت کا پردہ سر سے پاؤں تک ہونا چاہیےحتیٰ کہ پاؤں بھی مستور ہوں۔(ابو داؤد) جبکہ مرد کے لئے یہ پابندی نہیں ہے۔
( جب عورت عورتوں کی امامت کرائے گی تو عورتوں کے آگے نہیں بلکہ ان کےدرمیان کھڑی ہوگی۔ (مستدرک حاکم) جبکہ مرد امامت کے لئے آگے کھڑا ہوگا۔
( امام جب بھول جائے تو عورت تالی بجاکر اسے متنبہ کرے گی۔(صحیح بخاری) جبکہ مرد سبحان اللہ کہہ کر امام کو خبر دار کردے گا۔
اس کے علاوہ ہمارے ہاں جو فرق ملحوظ رکھا جاتا ہے کہ مرد کانوں تک ہاتھ اٹھائے اور عورت کندھوں تک، نیز عورت سینے پر ہاتھ باندھے اور مرد ناف کے نیچے یا عورت بحالت سجدہ اپنے بازوؤں کو زمین پر بچھا دے۔یہ سب بے بنیاد اور خودساختہ ہیں۔
سوال۔کیا عذر کے بغیر دو نمازوں کو جمع کیا جاسکتا ہے؟نیز اگر مقیم ہونے کی صورت میں بوجہ بارش مغرب کے ساتھ عشاء کی نماز پڑھ لی جائے تو مغرب کی سنتیں پڑھیں گے یا نہیں اور عشاء کی سنتیں بھی پڑھنی ہوں گی یا نہیں؟(فیصل نذیر۔ ڈجکوٹ)
جواب۔دو نمازوں کو کسی سبب کی بنا پر جمع کیا جاسکتا ہےجیسا کہ سفر وخوف یا بارش آندھی یا بیماری و غیرہ۔لیکن بلاوجہ نمازوں کو جمع کرنا درست نہیں۔بعض صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے بلاوجہ نمازوں کو جمع کرنے کو کبیرہ گناہ میں شمار کیا ہے۔اگرچہ ترمذی میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مرفوعاً بھی اس قسم کی روایت مروی ہے۔ لیکن وہ حنش بن قیس راوی کی وجہ سے ناقابل اعتبار ہے۔پھر سنن ونوافل کی اہمیت اپنی جگہ مسلم ہے لیکن مقیم ہونے کی صورت میں پہلی نماز کے بعد والی سنتیں نہیں پڑھنی چاہئیں، مثلا ظہر اور عصر کو جمع کیا ہے توظہر کی آخری سنتیں اور اگر مغرب وعشاء کو جمع کیا ہےتو مغرب کی دو سنتیں نہ پڑھی جائیں، البتہ عشاء کے بعد کی دو سنتیں اور وتر وغیرہ پڑھنے چاہئیں۔حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کے متعلق حدیث میں آیا ہے کہ انہوں نے بصرہ میں ظہر اور عصر جمع کرکے ادا کیں اور ان کے درمیان کچھ نہ پڑھا، پھر مغرب اور عشاء کو جمع کرکے پڑھا ،ان کے درمیان بھی کچھ نہ پڑھا ،آپ نے کسی مصروفیت کی بنا پر ایسا کیا ،پھر انہوں نے بیان کیا کہ میں نے رسول ا اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مدینہ منورہ میں ظہر اور عصر کی آٹھ رکعات اکھٹی پڑھی تھیں، آپ نے درمیان میں کچھ نہ پڑھا تھا۔(سنن نسائی ،کتاب المواقیت، باب الجمع بین الصلواتین فی الحضر)