کتاب: فتاویٰ اصحاب الحدیث(جلد 1) - صفحہ 130
چاہیے۔(واللہ اعلم)
سوال۔میر پور خاص سے محمد مشتاق دریافت کرتے ہیں کے فرض نمازوں کے بعد نوافل کی تعداد کے متعلق احادیث میں کیا وارد ہے؟
جواب۔نوافل کی ادائیگی کے متعلق کوئی پابندی نہیں ہے۔اللہ کے حضور جتنی بھی نفلی عبادت پیش کی جائے گی،اتنا ہی اجر وثواب ملےگا۔ البتہ فرائض سے پہلے یا بعد سنن کی ادائیگی کے متعلق احادیث میں آیا ہے ۔بعض روایات کےمطابق ان کی تعداد بارہ ہے۔ان کی ادائیگی اور محافظت پر اللہ کی طرف سے جنت میں ایک عظیم الشان محل تیار کردینے کی بشارت ہے۔ دو کعت فجر سے پہلے ،چارظہر سے پہلے اور دو رکعت اس کے بعد، دو رکعت مغرب کے بعد اور دو رکعت عشاء کے بعد، وتر نماز عشاء کا حصہ نہیں ہیں۔جیسا کہ عام طور پر خیال کیا جاتا ہے۔بلکہ یہ نماز تہجد کا حصہ ہے جسے سونے سے پہلے اد کرنے کی اجازت ہے۔بعض دوسری روایت میں سنن کی تعداد دس بھی ہے۔اس میں ظہر سے پہلے دو رکعت کو شمار کیا گیا ہے۔ہمارے ہاں عام طور پر گنجائش تلاش کی جاتی ہے۔جیسا کہ ظہر سے پہلے دو رکعت ادا کرنے کا ذکر بعض روایات میں ملتا ہے، اسے اپنانے کی کوشش کی جاتی ہے،حالانکہ ظہر کے بعد چار رکعت ادا کرنے پر جہنم سے آزادی کی بشارت دی گئی ہے۔لیکن اس پر بہت کم لوگوں کو عمل پیرا ہوتے ہوئے دیکھا گیا ہے، بہرحال سنن رواتب کی پابندی سے فرائض کی مخالفت ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ اللہ کے ہاں ہم اجر وثواب کے بھی حق دار ٹھہر سکتے ہیں، لہذا ان کی ادائیگی میں سستی نہیں کرنی چاہیے۔
سوال۔جوہر آباد سے طالب حسین پوچھتے ہیں کہ نماز عشاء کی کل رکعت سترہ ہیں یا سات؟
جواب۔نماز عشاء کی کل چھ رکعت ہیں چار فرض دو سنت اورتین وتر، البتہ نماز وتر عشاء کا حصہ نہیں ہے بلکہ یہ ایک الگ رات کی نماز ہے جسے سہولت کے پیش نظر عشاء کے ساتھ پڑھنے کی اجازت دی گئی ہے ۔نماز عشاء کے لئے سترہ رکعات کا ثبوت کسی صحیح حدیث سے نہیں ملتا، ویسے نوافل ادا کرنے پر کوئی پابندی نہیں ہے۔
سوال۔رحیم یار خان سے محمد ادریس بذریعہ ای میل سوال کرتے ہیں کہ قرآن وحدیث کی رو سے مرد اور عورت کی نماز میں کیا فرق ہے۔اس کی وضاحت فرمائیں۔
جواب۔واضح رہے کہ اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہمارے لئے نمونہ بنا کر بھیجا ہےجیسا کہ قرآن مجید میں بصراحت موجود ہے، لہذا نماز پڑھنے کی ہیئت وکیفیت اور مقدار ومعیار میں بھی آ پ کو نمونہ سمجھنا چاہیے۔ ایک دفعہ آپ نے منبر پر کھڑے ہوکر نماز ادا کی۔ سجدہ نیچے اتر کر ادا کیا ،آخر میں فرمایا:''کہ میں نے نماز کی ادائیگی کا یہ اسلوب اس لئے اختیار کیا ہے تاکہ تم لوگ میری اقتدا کرو اور میری نماز سیکھو۔''(صحیح بخاری :کتاب الجمعۃ 917)
اس حدیث میں نماز کے لئے مرد اور عورت کے درمیان فرق کرنے کی کوئی وضاحت نہیں ہے آپ کا طریقہ نماز مرد اور عورت دونوں کے لئے ہے۔اسی طرح حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ بیا ن کرتے ہیں کہ ہم قریب قریب ایک ہی عمر کے چند نوجوان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور تقریباً بیس دن تک آپ کی صحبت میں رہے، پھر ایک دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:'' اب تم اپنے گھروں کولوٹ