کتاب: فتاویٰ اصحاب الحدیث(جلد 1) - صفحہ 129
سوال۔فیصل آباد سے قاری حبیب اللہ بسمل(خریداری نمبر 1483) لکھتے ہیں کہ اگر امام سے دوران جماعت کوئی سجدہ رہ جائے اور سلام کے بعد یاد آئے تو اس کی تلافی کیسے ہوسکتی ہے؟کیا اس کے لئے سجدہ سہو کافی ہوگا یا نہیں؟ جواب۔دوران نماز اگر کوئی سہو ہوجائے تو ا س کی تلافی کے لئے سجدہ سہو کیا جاتا ہے۔حدیث میں ہے کہ ہر سہو کے لئے دو سجدے ہیں۔(ابن ماجہ :کتاب اقامۃ الصلوۃ 1219) چونکہ یہ سجدے شیطان کے لئے ذلت اور رسوائی کاباعث ہیں۔(صحیح مسلم :571) اس لئے اگرکوئی مسنون عمل رہ جائے تو ا س کی تلافی صرف دو سجدوں سے ہوجائے گی۔ جیسا کہ پہلاتشہد واجب نہیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دفعہ درمیانہ تشہد چھوڑ دیا اور تیسری رکعت کے لئے کھڑے ہوگئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی تلافی کے لئے آخر میں دو سجدے کرلیے۔(صحیح بخاری :السہو 1224) امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث کو اس بات کے لئے دلیل بنایا ہےکہ پہلا تشہد ضروری نہیں ہے کیونکہ ایک دفعہ رہ جانے کے بعد اس کا اعادہ نہیں کیا بلکہ دو سجدوں کو ہی کافی خیال کیا ہے۔(صحیح بخاری :الاذان 829) سجدہ نماز کا رکن ہے کیوں کہ اللہ تعالیٰ نے اس کی ادائیگی کا حکم دیا ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے؛''ایمان والو! تم رکوع اور سجدہ کرو۔''(22/الحج :77) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آدمی کو سجدہ اچھی طریقے سے کرنے کا حکم دیا تھا جس نے جلدی سے نماز کو اد اکرلیا تھا۔ اس لئے رکن کے رہ جانے سے پہلے رکن ادا کرنا ہوگا۔پھر سجدہ سہوکیے جائیں جیسا کہ حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز عصر کی ایک رکعت بھول کر چھوڑ دی۔پھر وہ رکعت ادا کی اور بعد میں سجدہ سہو کیا۔(صحیح مسلم:المساجد 574) جس رکعت میں سجدہ یا رکوع رہ جائے وہ رکعت شمار نہیں ہوگی۔اگر کسی کا سجدہ یا رکوع رہ جائے تو مکمل رکعت ادا کرنا ہوگی،پھر دو سجدے بطور سہو ادا کئے جائیں گے، اگر سلام کے فوراً بعد یاد آجائے تو اسی رکعت کا اعادہ کافی ہوگا اگر نماز کے کافی دیر بعد یاد آئے جب کہ امام اورمقتدی مسجد سے چلے گئے یا دنیاوی گفتگو میں مصروف ہوگئے تو مکمل نماز کا اعادہ کرنا ہوگا۔ آخر میں سجدہ سہو دونوں صورتوں میں کرنا ہوں گے۔صورت مسئولہ میں اگر سلام کے فورا بعد یا د آجائے تو ایک رکعت پڑھ کرسجدہ سہو کرلیا جائے۔مقتدی حضرات کو بھی امام کے ساتھ رکعت کا اعادہ کرنا ہوگا۔(واللہ اعلم بالصواب) سوال۔ضلع قصور سے حافظ زکریا دریافت کرتے ہیں کہ کیا مسجد کی چھت امام مسجد کی رہائش کے لئے جائز ہے؟ جواب۔مسجد کے لئے جو قطعہ اراضی حاصل کیا جائے،اس پر وضو کی جگہ اورطہارت خانے بھی بنائے جاتے ہیں، لوازمات مسجد کی بنا پر اسے جائز قرار دیاجاتا ہے۔امام مسجد کے لئے مکان کی تعمیر بھی لوازمات مسجد سے ہے۔بشرطیکہ اس کا کوئی اور متبادل بندو بست نہ ہوسکتا ہو۔مسجد کے ظاہری آداب کو ملحوظ رکھتے ہوئے ضروری ہے کہ جہاں وضو کی جگہ یا طہارت خانے ہوں ان کی چھت پر امام مسجد کے لئے رہائشی مکان تعمیر کیا جائے۔اگر وہاں گنجائش نہ ہوتو مسجد کی چھت پر مکان تعمیر کرنے میں ان شاء اللہ کوئی مواخذہ نہیں ہوگا۔لیکن محل وقوع ایسا ہونا چاہیے کہ مسجد کے اندر سے آمدورفت نہ ہو بلکہ باہر سے سیڑھی وغیرہ کا انتظام ہونا