کتاب: فتاویٰ اصحاب الحدیث(جلد 1) - صفحہ 128
وقت میر ی عمر بمشکل چھ یا سات سال تھی۔دوران جماعت مجھ پر صرف ایک چادر ہوتی جو بعض اوقات بحالت سجدہ پیچھے سے ایک طرف ہٹ جاتی۔ ایک دن کسی عورت نے کہا کہ اپنے امام کی مکمل طور پر ستر پوشی تو کرو۔اہل قبیلہ نے مجھے ایک قمیص بنوادی جس سے مجھے بہت خوشی ہوئی۔(صحیح بخاری :کتاب المغازی 4302)
اس حدیث سے واضح طور پر معلوم ہوتا ہے کہ نابالغ بچہ جسے طہارت ونجاست کی تمیز ہے وہ فرائض کی امامت بھی کراسکتا ہے ۔نماز تراویح تو نوافل ہیں ا س کی جماعت تو بالاولیٰ درست ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جماعت کے لئے جو معیار قائم فرمایا ہے وہ یہ ہے کہ قرآن کریم زیادہ یاد ہو۔اگر قراءت میں برابر ہیں تو عمر کے لحاظ سے جو بڑا ہو ا سے جماعت کے لئے منتخب کرنا چاہیے، صورت مسئولہ میں بچے نماز تراویح کی جماعت کراسکتے ہیں۔جبکہ وہ قرآن کریم کا بیشتر حصہ یاد کئے ہوئے ہیں۔
سوال۔محمد الیاس بذریعہ ای میل سوا ل کرتے ہیں کہ ایک عورت جو حافظہ قرآن ہے،وہ گھر میں عورتوں کو نماز تراویح باجماعت پڑھاتی ہے کیا عورت تراویح کی جماعت کراسکتی ہے؟
جواب۔امت کے اکثر علماء ئے سلف اس بات کے قائل ہیں کہ عورت کا عورتوں کی جماعت کرانا صحیح اور جائز ہے، اگرچہ کچھ حضرات نے اس موقف سے اختلاف کیا ہے تاہم عورت کا جماعت کرانا صحیح احادیث سے ثابت ہے۔ محدثین کرام نے اپنی کتب حدیث میں اس کے متعلق باقاعدہ عنوان بھی قائم کیے ہیں۔ چنانچہ امام ابو داؤد نے ایک عنوان بایں الفاظ قائم کیا ہے۔''کہ عورتوں کی امامت کا بیان'' پھر اس عنوان کو ثابت کرنے کےلئے شہیدہ فی سبیل اللہ حضرت امہ ورقہ بنت عبداللہ رضی اللہ عنہا کا واقعہ نقل کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں فرمایا تھا کہ وہ اپنے اہل خانہ کی نماز باجماعت کے لئے امامت کے فرائض سر انجام دے۔اس حدیث کی شرح کرتے ہوئے مولانا شمس الحق عظیم آبادی لکھتے ہیں کہ اس حدیث سے عورتوں کی امامت اور ان کی نماز باجماعت کے اہتمام کا جواز ثابت ہوتا ہے۔(عون المعبود :1/230)
امام بیہقی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی ایک عنوان بایں الفاظ قائم کیا ہے کہ ''عورتوں کی امامت کے اثبات کا بیان'' پھر انھوں نے صدیقہ کائنات حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا واقعہ بیان کیا ہے کہ انہوں نے ایک دفعہ نماز کے لئے عورتوں کے درمیان کھڑے ہوکر ان کی امامت کرائی تھی۔(بیہقی :3/130)
حضرت ام حسن رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ محترمہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا کو عورتوں کی امامت کراتے دیکھا کہ آپ ان کے درمیان کھڑی تھیں۔(مصنف ابن ابی شیبہ :1/536)
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں'' کہ عورت دیگر عورتوں کی جماعت کراسکتی ہے۔ لیکن وہ آگے کھڑے ہونے کی بجائے عورتوں کے درمیان کھڑی ہو۔''(مصنف ابن ابی شیبۃ :1/536)
تابعین میں سے حضرت حمید بن عبدالرحمٰن اور امام شعبی کا بھی یہی فتویٰ ہے۔(مصنف ابن ابی شیبہ حوالہ مذکورہ)
ان احادیث وآثار کے پیش عورت دوسری عورتوں کی جماعت کراسکتی ہے لیکن جماعت کراتے وقت اسے عورتوں کے درمیان کھڑے ہونا چاہیے۔بعض روایت میں اما م شعبی رحمۃ اللہ علیہ سے منقول ہے کہ رمضان المبارک میں عورت دوسری عورتوں کو نماز تراویح پڑھا سکتی ہے۔