کتاب: فتاویٰ اصحاب الحدیث(جلد 1) - صفحہ 127
اس حدیث میں سیاہ رنگ سے پرہیز کرنے کا حکم ہےاور آپ کاامر وجوب کےلیے ہے۔امام نووی رحمۃ اللہ علیہ اس حدیث کی شرح کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ سیاہ رنگ کا خضاب حرام ہے اور یہی صحیح موقف ہے۔
ایک اور حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:'' قرب قیامت ایسی قومیں پیدا ہوں گی جو کبوتر کی گردن کی طرح اپنے بالوں کو سیاہ کریں گی وہ جنت کی خوشبو سے محروم رہیں گی۔''(ابوداؤد :الخاتم /4212)
ان احادیث سے معلوم ہوا کہ سر یا داڑھی کو سیاہ خضاب لگاناحرام ہے، اگر کوئی امام مسجد اپنی داڑھی کو سیاہ خضاب لگاتا ہے تو وہ کبیرہ گناہ کا مرتکب ہوتا ہے،اسے چاہیے کہ اس سے اجتناب کرے ،البتہ اس کے پیچھے نماز ادا کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ لیکن اگر وہ اسے حلال سمجھتا ہے اور اپنے اس فعل کے جواز پر من گھڑت تاویلیں پیش کرتا ہے تو اسے امامت سے معزول کیا جاسکتاہے۔اہل جماعت کو چاہیے کہ وہ ایسے امام کا حکمت اور دانائی سے نوٹس لیں، باہمی اختلاف اور کسی دوسرے کی ذلت کسی صورت میں جائز نہیں ہے۔
سوال۔جوہر آباد سے طالب حسین پوچھتے ہیں کیاگھر میں کوئی مرد خواتین کی جماعت کرواسکتا ہے؟
جواب۔اگر مستورات باجماعت نماز ادا کرنے کی خواہش مندہوں اور ان میں سے کوئی بھی جماعت کرانے کے قابل نہ ہو تو اپنے محارم میں سے کسی کو جماعت کے لئے کہا جاسکتا ہے۔حدیث میں ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کاایک ذکوان رضی اللہ عنہ نامی غلام ان کی جماعت کراتا تھا۔
(بخاری :باب امامۃ العبد)
اس حدیث کے پیش نظر افراد خانہ میں سے کوئی شخص عورتوں کی جماعت کراسکتا ہے۔(واللہ اعلم)
سوال۔ملتان سے ڈاکٹر بشیر احمد قاضی سوال کرتے ہیں کہ میرے دو بیٹے قرآن مجید حفظ کرتے ہیں۔ہم رمضان میں ان سے نمازتراویح میں قرآن مجید سننے کا اہتمام کرتے ہیں۔بعض دوستوں کا کہنا ہے کہ نابالغ بچے کا جماعت کرانا صحیح نہیں ہے۔ اس کے متعلق ہماری راہنمائی کریں۔
جواب۔ہمارے ہاں احناف کا موقف یہ ہے کہ نابالغ بچے کے ذمے نہ تراویح سنت موکدہ ہے ،جب کہ بالغ شخص کےلئے تراویح کی ادائیگی سنت ہے، اس لئے اقتدائے ضعیف کی وجہ سے نابالغ بچے کو تراویح میں امام بنانا درست نہیں۔تاہم اگر وہ نابالغ بچوں کو تراویح پڑھائے تو کوئی مضائقہ نہیں۔(امدادالفتاویٰ :1/361)
لیکن یہ موقف کتاب وسنت کے خلاف ہے۔کیونکہ امامت کی شرائط میں کوئی ایسی شرط نہیں ہے کہ بچہ امامت کے اہل نہیں، صرف اتنا ضرور ہے کہ بچہ طہارت ونجاست کی تمیز کرسکتا ہو۔اگر بچہ سمجھدار ہے اور سن رشد میں پہنچ کر اپنی پاکی پلیدی کا خیال رکھتا ہے تو اس کی امامت بلا کراہت جائز ہے۔حضرت عمرو بن سلمہ رضی اللہ عنہ بیا ن کرتے ہیں کہ ہمارا گھر مکہ اور مدینہ کے درمیان ایک ایسی جگہ پر واقع تھا جہاں مسلمان بکثرت گزرتے تھے۔میں نے ان سے مسلمان ہونے سے پہلے قرآن کریم کا کافی حصہ یاد کرلیا تھا۔ جب فتح مکہ ہوا تو میرے والد محترم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس مکہ میں حاضر ہوئے اور اپنا اسلام پیش کیا۔آپ نے نماز روزہ کے متعلق ہدایات دینے کے ساتھ یہ بھی فرمایا کہ جب نماز کا وقت ہوجائے تو تم میں سے کوئی ایک اذان دے اور جسے قراءت زیادہ یاد ہو وہ امامت کے فرائض سر انجام دے۔ مجھے چونکہ قرآن کا کافی حصہ یاد تھا،ا س لئے جماعت کے لئے مجھے منتخب کرلیا گیا۔اس