کتاب: فتاویٰ اصحاب الحدیث(جلد 1) - صفحہ 126
4۔ قرآن اٹھا کر جھوٹی گواہی کا مرتکب ہے۔ کیا ایسے حالات میں اس کی امامت درست ہے۔ جواب۔ بشرط صحت سوال واضح ہو کہ اگر مذکورہ باتیں کسی عالم دین میں پائی جاتی ہیں تو انتہائی قابل افسوس اور لائق ملامت ہیں اور یہ تمام فسق وفجور اور کبیرہ گناہوں کے زمرہ میں آتی ہیں، جن کاارتکاب کسی بھی صورت میں درست نہیں ۔اس قسم کا انسان امامت کے قطعاً قابل نہیں ہے۔حدیث میں ہے:'' تم اپنے بہترین لوگوں کو امام بناؤ۔کیوں کہ یہ تمہارے اور تمہارے رب کے درمیان رابطہ ہیں۔''(بیہقی :3/90) اس کی سنداگرچہ ضعیف ہے۔تاہم اس کی تائید میں متعدد روایات ملتی ہیں مثلاً ( رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: کہ اگر تم چاہتے ہو کہ تمہاری نماز شرف قبولیت سے نوازی جائے تو اپنے میں سے بہتر امام کا انتخاب کرو۔''(مستدرک حاکم :4/222) ( رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک امام کو صرف اس لئے امامت سے معزول کردیا تھا کہ اس نے بحالت نماز قبلہ کی طرف تھوکا تھا۔(ابو داؤد کتاب الصلوۃ) اگرچہ ائمہ دین نے فاسق وفاجر کی امامت کو صحیح قرار دیا ہے تاہم انھوں نے یہ بھی تلقین کی ہے کہ عام حالات میں ایسے لوگوں کی امامت کو برقرار رکھنا درست نہیں ہے۔ لہذااگر مقتدی حضرات اسے تبدیل کرسکتے ہیں تو کسی پسندیدہ انسان کو اس منصب پر فائز کریں۔ بہتر تو یہ ہے کہ ایسا امام خود امامت سے الگ ہوجائے جسے مقتدی اچھا نہ سمجھتے ہوں اگر وہ امامت نہیں چھوڑنا چاہتا تو اسے ناگفتہ حالت پر ضرور نظر ثانی کرنی چاہیے، اللہ تعالیٰ ہمارے ائمہ کرام کو عمل کی توفیق دے۔آمین سوال۔محمد شفیع بذریعہ ای میل پوچھتے ہیں کہ بد کردار اور بدعقیدہ امام کے پیچھے نماز پڑھنا جائز ہے یا نہیں؟ جواب۔اگر کوئی امام کفریہ عقائد رکھتا ہے،مثلا ً رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غیب کلی جانتے ہیں۔ اور ہر جگہ حاضروناظر ہیں ،نیز اولیاء اللہ حاجت روا اور مشکل کشا ہیں تو اختیاری حالات میں ایسے امام کے پیچھے نماز درست نہیں ہے۔اس طرح اگر کوئی امام کھلے عام شرک کا ارتکاب کرتا ہے تو اس کے پیچھے بھی نماز ادا کرنے سے اجتناب کرنا چاہیے ۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:''کہ نماز کے لئے ایسے اما م کا انتخاب کرو جو تم سے بہتر ہو کیونکہ امام تمہارے اور تمہارے رب کے درمیان ایک رابطہ ہے۔''(بیہقی :3/90) اس حدیث کے پیش نظرامام کسی ایسے شخص کو بنایا جائے جو عقائد کے لحاظ سے اور اخلاق وکردار کے لحاظ سے صاف ستھرا ہو، البتہ اضطراری حالت میں اگر امام کا پتہ نہ چل سکے تو کرید کرنے کی ضرورت نہیں لیکن قصداً کفر وشرک کے مرتکب کو امام نہیں بنایا جاسکتا۔(واللہ اعلم) سوال۔سیالکوٹ سے محمدشریف سوال کرتے ہیں کہ اگر امام اپنی داڑھی کو سیاہ خضاب لگائے تو کیا اس کے پیچھے نماز ہوجاتی ہے؟ جواب۔اپنے سفید بالوں کو سیاہ خضاب لگانا حرام اور ناجائز ہے۔حدیث میں ہے کہ فتح مکہ کے دن حضرت ابوبکر صدیق کے والد ابو قحافہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لایا گیا تو اس کی داڑھی اور سر کے بال بالکل سفید تھے، اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :'' کہ اس کے بالوں کی سفیدی کو تبدیل کرو، لیکن سیاہ رنگ سے پرہیز کرو۔''(صحیح مسلم :اللباس 5509)