کتاب: فتاویٰ اصحاب الحدیث(جلد 1) - صفحہ 124
صریح بھی منقول ہے،چنانچہ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں:'' میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ تسبیحات کہتے وقت وہ دائیں ہاتھ سے گرہ لگاتے تھے۔''(ابو داؤد،ابواب الوتر التسبیح بالحصی) واضح رہے کہ امام ابو داؤد نے اس روایت کو اپنے دو اساتذہ عبید اللہ بن عمر اور محمد بن قدامہ سے بیان کیا ہے مذکورہ الفاظ دوسرے شیخ محمد بن قدامہ نے نقل کیے ہیں اورعبید اللہ بن عمر '' یعقد التسبیح'' پر روایت ختم کردیتے ہیں۔چونکہ ثقہ راوی کا اضافہ قبول ہوتا ہے اس لئے امام منذری نے جب ابوداؤد کی تلخیص کی تو انہوں نے وفي رواية بيمينه کے الفاظ بیان کیے ہیں۔(مختصر ابی داؤد ج1 ص 147) اور علامہ البانی رحمۃ اللہ علیہ نے صحیح ابو داؤد میں '' يعقد التسبيح بيمينه'' کے الفاظ سے روایت بیان کی ہے۔(صحیح ابو داؤد حدیث نمبر 1330) یہ وضاحت اس لئے کی گئی ہے کہ بعض اہل علم ان الفاظ کو ابن قدامہ کا استنباط قرار دیتے ہیں۔ سوال۔محمد یٰسین صدیقی آزاد کشمیر سے پوچھتے ہیں کہ مجھے ننگے سر نماز پڑھنے کی وجہ سے بہت تنگ کیاجاتا ہے کیا شریعت میں ننگے سر نماز پڑھنے کی اجازت ہے۔نیز بتائیں کہ غیر اہل حدیث کے پیچھے نماز ہوجاتی ہے؟ جواب۔سر جسم کا ایسا حصہ نہیں ہے جس کا نماز میں ڈھانپنا ضروری ہو، البتہ ننگے سر رہنا انسانی وقار اور شرافت کے خلاف ضرور ہے، اس لئے ہمیشہ ننگے سر نماز پڑھنے کو عادت نہیں بنانا چاہیے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عام حالات میں ننگے سر نماز پڑھنے کا ثبوت کسی صحیح اور صریح حدیث سے نہیں ملتا ،اس بنا پر ننگے سر نماز پڑھنا ضروری نہیں اور نہ ہی اس عادت کو اپنے لئے طرۂ امتیاز بنایاجائے۔ نماز کی ادائیگی ایسے لوگوں کی اقتدا میں ہونی چاہیے جن کے عقائد ونظریات کتاب وسنت سے متصادم نہ ہوں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے کہ''امامت کے لئے ایسے افراد کا انتخاب کرو جو تم سے بہتر ہوں'' اس لئے مستقل طور پر غلط عقائد کے حاملین کو امام نہیں بنانا چاہیے ،اگر کبھی کبھار لا علمی کی صورت میں اتفاقاً ایسا ہوجائے تو ان شاء اللہ نماز ہوجائے گی۔ سوال۔بستی دھرم پورہ عبد الحکیم سے محمد رمضان جوہری دریافت کرتے ہیں کہ اگر مسجد کے محراب کو اونچا کردیا جائے اور امام وہاں اونچی جگہ پر کھڑا ہوکر جماعت کرائے مقتدی امام سے نیچے ہوں تو نماز ہوجائے گی یانہیں؟قرآن وحدیث کی روشنی میں وضاحت فرمائیں۔ جواب۔ اگر امام اونچا ہو اور مقتدی نیچے ہوں نماز میں کوئی خلل واقع نہیں آتا۔البتہ ایسی صورت کسی مقصد کے پیش نظر ہو، اسے معمول بنانا اچھا نہیں ہے، حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دفعہ منبر پر قیام فرمایا جبکہ لوگ آپ کی اقتدا کررہے تھے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے منبر پررکوع فرمایا، پھر سجدے کےلئے نیچےاُترے، فراغت کے بعد پھر منبر پرتشریف لے گئے ،دوسری رکعت کا قیام اور رکوع منبر پر کیا ،پھر نیچے اتر کرسجدہ کیا، اس طرح آپ نے اپنی نماز کو مکمل کیا۔(صحیح بخاری :کتاب الصلاۃ 377) علی بن مدینی اس حدیث کو بیان کرنے کے بعد فرماتے ہیں:'' رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں سے اونچے تھے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے کہ امام لوگوں سے اونچا کھڑا ہو۔''(صحیح بخاری حوالہ مذکورہ)