کتاب: فتاویٰ اصحاب الحدیث(جلد 1) - صفحہ 123
اس حدیث سے معلوم ہواکہ ظہر سے پہلے چار سنت کے بجائے دو رکعت بھی پڑھی جاسکتی ہیں۔ان بارہ رکعات کو سنن مؤکدہ کہا جاتا ہے،ان کے علاوہ کچھ سنتیں غیر موکدہ بھی ہیں مثلاً ( رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:''جوشخص عصر سے پہلے چار رکعت(سنت) پڑھے اللہ اس پر رحم کرے۔''(صحیح مسلم: صلوۃ المسافرین 730) ( رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو مرتبہ فرمایا:'' کہ مغرب سے پہلے دو رکعات ادا کرو، تیسری بار فرمایا کہ جس کا دل چاہے۔'' یہ اس لئے فرمایا کہ کہیں لوگ اسے سنت موکدہ نہ بنا لیں۔(صحیح بخاری التہجد 1183) ( جمعہ سے پہلے نوافل کی ادائیگی پر کوئی پابندی نہیں ہے، حدیث میں ہے:'' کہ جوشخص غسل کرکے جمعہ کے لئے آئے اور خطبہ شروع ہونے تک جس قدرہوسکے نوافل ادا کرتا رہے، پھر خطبہ جمعہ شروع سے آخر تک خاموشی سے سنے تو اس کے گزشتہ جمعہ سے لے کر اس جمعہ تک اور مزید تین دن کے گناہ معاف کردیئے جاتے ہیں۔(صحیح مسلم، الجمعۃ 857) ( جمعہ کے بعدچار رکعات سنتیں پڑھنا چاہیں جیسا کہ حدیث میں ہے '' کہ جب تم جمعہ کے بعد نماز پڑھنا چاہو تو چار رکعات ادا کرو۔''(صحیح مسلم الجمعہ 881) اگر کوئی گھر آکر پڑھنا چاہے تو دو رکعات ہی کافی ہیں جیسا کہ حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جمعہ کے بعد کچھ نہیں پڑھا کرتے تھے تا آنکہ اپنے گھر آتے اوردو رکعات پڑھتے۔(صحیح بخاری الجمعہ 937) نماز عشاء کے ساتھ ہم نے وتروں کا ذکر اس لئے نہیں کیا کہ وتر عشاء کی نماز کا حصہ نہیں ہیں بلکہ وتر تہجد کا حصہ ہیں جو تہجد کے ساتھ ملا کر پڑھے جاتے ہیں،جوحضرات رات کو اٹھنے کے عادی نہ ہوں شریعت نے انہیں سہولت دی ہے کہ وہ نماز عشاء کے ساتھ انہیں پڑھ لیں ،حدیث میں ہے :'' جسے اندیشہ ہو کہ رات کے آخری حصہ میں نہیں اٹھ سکے گا و ہ اول شب ہی میں وتر پڑھ لے۔''(صحیح مسلم صلوۃ المسافرین 755) ان فرائض وسنن کے علاوہ نوافل کی ادائیگی پر کوئی پابندی نہیں ہے، آپ حضرات اپنی خوشی سے جس قدر چاہیں نوافل پڑھ سکتے ہیں۔لیکن ان نوافل کو فرائض کے ساتھ نتھی نہ کیا جائے۔ واضح رہے کہ قیامت کے دن جب نماز کے متعلق باز پرس ہوگی تو فرائض کی کمی کو نوافل وسنن سے پورا کیا جائے گا۔اس لئے فرائض کی حفاظت کے لئے سنن اور نوافل ادا کرنے چاہئیں۔ سوال۔خانیوال سے عبدالحمید صاحب دریافت کرتے ہیں کہ نماز کے بعد تسبیحات دائیں بائیں دونوں ہاتھوں پر کی جاسکتی ہیں یا صرف دایاں ہاتھ ہی استعمال کرنا چاہیے؟ جواب۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا عام معمول تھا کہ پسندیدہ اور خیر وبرکت کے کام دائیں ہاتھ سے بجا لاتے، مثلا :کھانا پینا وغیرہ ،البتہ کراہت پر مبنی کاموں کے لئے بایاں ہاتھ استعمال فرماتے جیسا کہ ناک صاف کرنا یا استنجا وغیرہ۔حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں:'' رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حتی المقدور اپنے تمام کام (پسندیدہ کام) بجا لانے میں دائیں جانب کو پسند کرتے تھے ،وضو کرنے، کنگھی پھیرنے اور جوتا پہننے میں بھی دائیں جانب کو پسند کرتے تھے۔''(صحیح بخاری کتاب الصلوۃ، حدیث نمبر 426) تسبیحات میں خیر وبرکت کا پہلو نمایاں ہے، اس لئے انہیں دائیں ہاتھ سے کرنا چاہیے ،کتب حدیث میں اس کے متعلق نص