کتاب: فتاویٰ اصحاب الحدیث(جلد 1) - صفحہ 12
اس آسانی کا مفہوم یہ نہیں کہ مسائل میں اس قدر تساہل برتا جائے کہ حرام کو حلال اور حلال کوحرام بنادیا جائے بلکہ تنگی مشقت سختی اور بے جا شدت پسندی کو دور کرنا ہے، اس لیے وارثان انبیاء کو چاہیے کہ وہ لوگوں کی دینی راہنمائی کرتے وقت راہ اعتدال اختیار کریں اور آسانی کی طرف میلان رکھیں۔جیسا کہ عمر ابن اسحاق رحمۃ اللہ علیہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے متعلق فرماتے ہیں:'' کہ میں نے کوئی قوم نرمی کے اعتبار سے صحابہ سے زیادہ نرم اور شدت کے لحاظ سے ان سے کم شدت پسند نہیں دیکھی۔''(دارمی :ج1 ص 51) ہم نے شریعت کے دائرہ میں رہتے ہوئے اپنے فتاویٰ میں سائلین کے لئے آسانی پیدا کرنے کی کوشش کی ہے اور بے جا سختی اور حرفیت پسندی سے اجتناب کیاہے۔اور جواب دیتے وقت اس پہلو کو اختیار کیا ہے جس کا نفس انسانی متحمل ہو ورنہ تھوڑی بہت مشقت تو ہرکام میں اٹھانا ہی پڑتی ہے۔ نیز کسی چیز کو حلال یا حرام قرار دینے کے متعلق ہم نے جلد بازی سے احتراز کیا ہے ہاں کسی چیز کی حلت وحرمت اگر کتاب وسنت کی صریح نصوص سے ثابت ہوتو ہم نے اس سلسلے میں کسی قسم کی مداہنت سے کام نہیں لیا ہے کیونکہ اگر ایسے معاملات میں واضح حکم نہ لگایا جائے تو لو گ سستی کرتے ہوئے اس کے اسیر ہوجاتے ہیں۔ اس سلسلے میں ہمارا منہج یہ ہے کہ قرآن وسنت کو ایک ہی درجے میں رکھا جائے، ہم انھیں مسائل میں اکھٹا دیکھنے اور ان میں تفریق نہ کرنے کے قائل ہیں جیسا کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی صحیح میں اسی اسلوب کو اختیار کیا ہے۔اس کے ساتھ ساتھ ہم نے اس بات کا التزام کیا ہے کہ استنباط مسائل میں ''سبیل المومنین'' سے خروج نہ کیا جائے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اپنی اور اپنے رسول کی اطاعت کے ساتھ سبیل المومنین کا بطور خاص ذکر فرمایا ہے،ارشاد باری تعالیٰ ہے:''جو شخص راہ راست واضح ہوجانے کے بعد رسول کی مخالفت کرے اور سبیل المومنین کے علاوہ کوئی دوسراراستہ اختیار کرے تو ہم اسے ادھر ہی پھیر دیں گے۔ جدھر کا خود اس نے رخ کرلیا ہے۔ پھر ہم اسے جہنم میں جھونک دیں گے جو بہت بری جگہ ہے۔''(4/النساء 115) مختصر طور پر ہم یہ کہنا چاہتے ہیں کہ ہمارا منہج کتاب وسنت ہے اور انھیں سمجھنے کے لئے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام رحمۃ اللہ علیہ کے فہم کا اعتبار کیا ہے علوم نبوت کے وارثان کا یہی طرہ امتیاز ہونا چاہیے۔ چنانچہ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے ایک دفعہ جابر بن زید سے فرمایا:'' کہ تم فقہائے بصرہ میں سے ہو اس لئے قرآن ناطق اور سنت ثابتہ کے بغیر فتویٰ نہ دیا کرو اگر تم نے اس کی خلاف ورزی کی تو خود بھی ہلاک ہوجاؤ گے اوردوسروں کو بھی تباہ کروگے۔''(سنن دارمی حدیث نمبر 166) اسی طرح حضرت ابو سلمہ نے امام بصری رحمۃ اللہ علیہ سے فرمایا:'' کہ تم اپنی رائے سے فتویٰ نہ دیا کرو فتویٰ کے لئے صرف اللہ کی نازل کردہ کتاب اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کا سہارا لیا کرو۔''(سنن دارمی حدیث 165) ہم نے اپنے اسلاف کے نقشے قدم پر چلتے ہوئے لوگوں کی دینی راہنمائی کے لئے ایک عرصہ سے سوال وجواب کاسلسلہ شروع کررکھا ہے،اس کا آغاز دسمبر 1987 ء سے ہوا جب مکتب الدعوۃ سعودی عرب کی طرف سے جامعہ سلفیہ فیصل آباد میں بطور مدرس تعینات ہوا، کتاب وسنت کی روشنی میں لوگوں کے مسائل حل کرنے کےلئے انتظامیہ کی طرف سے ایک فتویٰ کمیٹی تشکیل دی گئی جس کے سربراہ حضرت مولانا ثناء اللہ ہوشیار پوری تھے جواب اللہ کو پیارے ہوچکے ہیں ،اللہ تعالیٰ انہیں کروٹ کروٹ اپنی رحمت