کتاب: فتاویٰ اصحاب الحدیث(جلد 1) - صفحہ 11
کرنا ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:''مسلمان کے اچھے اسلام کی علامت یہ ہے کہ وہ فضول باتوں کوچھوڑ دے۔''(مسند امام احمد:ج1 ص 210)
اس سے معلوم ہوا کہ لامعنی اور بے مقصد چیزوں کے متعلق سوالات کرنا جس کاتعلق عملی زندگی سے نہیں ہے شریعت نے اسے مستحسن قرار نہیں دیا ہے، مثلا زلیخا کی شادی حضرت یوسف علیہ السلام سے ہوئی تھی یا نہیں؟ حضر ت موسیٰ علیہ السلام کی والدہ کا نام کیاتھا؟اور حضرت نوح علیہ السلام کی کشتی کا طول عرض کتنا تھا؟وغیرہ۔
(ب)فرضی مسائل کھڑے کرکے ان کے متعلق غور وخوض کرنا بھی اسی قبیل سے ہے۔چنانچہ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے پاس ایک آدمی آیا اور اس نے کسی چیز کے متعلق سوال کیا جس کا ابھی وقوع نہیں ہوا تھا۔ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا:'' کہ ایسی چیز کے متعلق سوال نہ کرو جو واقع نہیں ہوئی۔ہم نے اپنے والد گرامی حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے سنا وہ ایسے شخص پر لعنت کرتے تھے جو ایسی اشیاء کے بارے میں سوالات کرتا جو واقع نہ ہوئی ہوں۔''(مسند دارمی حدیث نمبر 123)
حضرت عمر رضی اللہ عنہ منبر پر فرمایا کرتے تھے:'' اللہ کی قسم! جو شخص ایسی چیز کے بارے میں سوال کرے گا جو واقع نہیں ہوئی ہیں اس پر راستہ تنگ کردوں گا یقینا ً اللہ تعالیٰ نے ہر ہونے والی چیز کو واضح کردیا ہے۔''(مسند دارمی : حدیث نمبر 162)
اس لئے ایسے سوالات ہرگز نہیں کرنے چاہئیں جو کبھی پیش نہ آتے ہوں کیونکہ ان میں بھی وقت کا ضیاع ہے۔اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ اہم ذمہ داری سونپی کہ وہ دینی مسائل میں لوگوں کی راہنمائی کریں اس ذمہ داری کو قرآن کریم میں ''قول ثقیل '' سے تعبیر کیا گیا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
''ہم آپ پر ایک بھاری بات ( کی ذمہ داری) نازل کرنے والے ہیں۔''(73/المزمل :5)
دوسرے مقام پربطور احسان فرمایا:''ہم نے آپ سے اس بوجھ کو اتار دیا ہے جو آپ کی کمر کو توڑے جارہا تھا۔''
(94/ الانشراح 2۔3)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عظیم ذمہ داری سے عہدہ برآ ہونے کے لئے لوگوں کے ساتھ آسانی اور نرمی کے اصول کو پیش نظر رکھا کیونکہ خود اللہ تعالیٰ نے لوگوں کے لیے اس ضابطہ کو پسند فرمایا ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے:''اللہ تعالیٰ تمہارے ساتھ نرمی کابرتاؤ چاہتا ہے سختی کا نہیں چاہتا۔''(2/البقرہ 185)
دوسرے مقام پرفرمایا:'' کہ اس نے دین کے معاملے میں تم پر کوئی تنگی نہیں رکھی۔''(22/الحج :78)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنا عمل بھی یہی تھا کہ ہمیشہ آسان معاملات کو اختیار فرماتے جیسا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ جب بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دو چیزوں میں سے ایک کے انتخاب کرنے کا اختیار دیا جاتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیشہ آسان معاملات کو اختیار فرماتے بشرطیکہ اس میں گناہ کا کوئی پہلو نہ ہوتا۔(صحیح البخاری الادب 6126)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے افراد امت کو بھی یہی تلقین فرمائی ہے :''تم آسانی کرنے والے بنا کر بھیجے گئے ہو تنگی کرنے والے بنا کر نہیں بھیجے گئے ۔'' (صحیح البخاری الادب 6127)