کتاب: فتاویٰ اصحاب الحدیث(جلد 1) - صفحہ 10
4۔مشکل ترین اور حساس معاملات کے متعلق سوالات کرنا تاکہ جواب دینے والا الجھن پیچیدگی کا شکار ہوجائے حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے معمہ جات اور پہیلیوں کی صورت میں سوالات کرنے (اغلوطات) سے منع فرما یا ہے۔(ابو داؤد :العلم 3656) 5۔تعبدی احکام کی غرض و غایت اور ان کی علت سے متعلق سوال کرنا جیسا کہ حضرت معاذ رضی اللہ عنہ نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے سوال کیا تھا کہ حائضہ عورت روزے کی قضا تو دیتی ہے لیکن اس کے لئے نماز کی قضا دینا کیوں ضروری نہیں ہے، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے یہ سوال ناپسند کرتے ہوئے فرمایا تھا:''تو حروریۃ معلوم ہوتی ہے۔''(مسلم الحیض '69) 6۔تکلف کرتے ہوئے کسی چیز کی گہرائی اور اس کی حقیقت کے متعلق سوال کرنا جیسا کہ حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ نے ایک حوض کے متعلق اس کے مالک سے دریافت کیا تھا کہ درندوں کی آمدورفت تو نہیں ہوتی۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس سوال کوناپسند کرتے ہوئے فرمایا:'' تجھے اس کے متعلق ہمیں بتانے کی قطعاً کوئی ضرورت نہیں ہے۔''(موطا امام مالک : الطہارہ '14) 7۔ایسے سوال کرنا جن میں عقل وقیاس کے ذریعے کتاب وسنت کی صریح نصوص کا رد مقصود ہو جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دفعہ شکم مادر میں قتل ہونے والے بچے کے متعلق فیصلہ کیاتھا اس کے بدلے ایک لونڈی یا غلام تاوان دیا جائے، جس کے خلاف یہ فیصلہ ہواتھا وہ کہنے لگاکہ میں ایسے بچے کا تاوان کیوں ادا کروں جس نے کھایا ہے نہ پیا ہے اور نہ ہی وہ بولا اور چلایا ہے ایسےبچے کا خون تو رائیگاں ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے انداز گفتگو کو ناپسند کرتے ہوئے فرمایاتھا:'' کہ یہ تو کاہنوں کا بھائی معلوم ہوتا ہے۔''(صحیح مسلم :القسامہ 1682) 8۔متشابہات کےمتعلق سوالات کرنا بھی اسی قبیل سے ہے جیسا کہ امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کے سامنے کسی نے یہ آیت پڑھی ''رحمٰن نے اپنے عرش پرقرار پکڑ لیا ہے''(20طہٰ 5)پھر امام مالک رحمۃ اللہ علیہ سے سوال کیا کہ استواء کیا ہے؟تو آپ نے فرمایا:''استواء تو معروف ہے اس کی کیفیت نا معلوم ہے اور اس کے متعلق سوال کرنا بدعت ہے۔''(مختصر العلو للذھبی :ص 141) 9۔اسلام کے باہمی مشاجرات کے متعلق سوالات کرنا کہ اہل صفین کے بارے میں حضرت عمر بن عبد العزیز رحمۃ اللہ علیہ سے سوال ہوا تو آپ نے فرمایا:''کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے خون سے میرے ہاتھوں کو محفوظ رکھا میں نہیں چاہتا کہ اپنی زبان کو اس میں ملوث کروں۔''(موافقات للشاطبی :ج 4 ص 320) 10۔کج بحثی کٹ حجتی اور دوسرے فریق کو لاجواب اور خاموش کرنے کے لئے سوالات کرنا جیسا کہ مشرکین مکہ اور یہود مدینہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مطالبات اور سوالات کرتے تھے، ایسے مطالبات وسوالات کا ہرگز یہ مقصد نہ تھا کہ اگر انہیں معقول جواب مل جائے تو اسے تسلیم کرلیں گے بلکہ ان کا مقصد یہ تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس قسم کے سوالات میں الجھا کرکم از کم دوسروں کو حق سے دور رکھا جائے، قرآن کریم نے ایسے لوگوں کی مذمت کی ہے،ارشادباری تعالیٰ ہے:'' یہ لوگ سخت جھگڑالو ہیں۔''(43/الزخرف:58) نیز حدیث میں ہے کہ ضدی اور سخت جھگڑالو اللہ کے ہاں انتہائی ناپسندیدہ ہے۔(صحیح بخاری :التفسیر 4523) سوالات کی مذکورہ امتناعی صورتیں علامہ شاطبی کی دریافت کردہ ہیں جو انہوں نے الموافقات ج 4 ص 320 میں بیان کی ہیں۔ان کے علاوہ مزید دو صورتیں بھی ہیں جن کی تفصیل حسب ذیل ہے: (الف) بے ضرورت سوالات گھڑ گھڑ کران کی تحقیقات میں دماغ سوزی کرنا بھی ممنوع ہے کیونکہ اس میں اپنا اوردوسروں کا وقت ضائع