کتاب: فتاوی ارکان اسلام - صفحہ 81
((سُبْحَانَ رَبِّیَ الْاَعْلٰی))( سنن ابی داود، الصلاۃ، باب ما یقول الرجل فی رکوعہ وسجودہ، ح: ۸۷۱ وجامع الترمذی، الصلاۃ، باب ماجاء فی التسبیح فی الرکوع والسجود، ح:۲۶۲ وسنن النسائی، الافتتاح باب تعوذ القاریء… ح:۱۰۰۹۔) ’’پاک ہے میرا رب جو سب سے بلند و بالا ہے۔‘‘ ۵۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا آسمان کی طرف اشارہ کرنا، خصوصا عرفہ کے عظیم وقوف کے وقت جس موقعہ سے اپنی زندگی میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی امت کے سب سے عظیم اجتماع میں لوگوں سے پوچھا تھا: ((أَلَا ہَلْ بَلَّغْتُ؟ قَالُوا: نَعَمْ فَقَالَ: اَللّٰہُمَّ اشْہَدْ)) (صحیح البخاری، الحج، باب الخطبۃ ایام منی، ح:۱۷۴۱ وصحیح مسلم، الحج، باب حجۃ النبی صلی اللّٰه علیہ وسلم ، ح:۱۲۱۸۔) ’’کیا میں نے تم تک پہنچا دیا ہے؟‘‘ لوگوں نے جواب دیا: ہاں، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اے اللہ! تو بھی گواہ ہو جا۔‘‘ آپ اس موقعہ پر یہ کلمات فرماتے ہوئے اپنی انگلی کو آسمان کی طرف اٹھا کر لوگوں کی طرف لے آتے تھے اور ان کی طرف اشارہ کرتے جاتے تھے، جیسا کہ صحیح مسلم میں حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث میں اس بات کی صراحت ہے ہے اور ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ آسمان میں ہے، ورنہ آسمان کی طرف انگلی اٹھانے کے کوئی معنی نہ تھے۔ ۶۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جب ایک باندی سے پوچھا: ’’اللہ کہاں ہے؟‘‘ تو اس نے جواب دیا: آسمان میں۔ تب آپ نے فرمایا: ((اَعْتِقْہَا فَاِنَّہَا مُؤْمِنَۃٌ)) ( صحیح مسلم، المساجد، باب تحریم الکلام فی الصلاۃ… ح:۵۳۷۔) ’’اسے آزاد کر دو، یہ مومنہ ہے۔‘‘ امام مسلم رحمہ اللہ نے اس واقعہ کو معاویہ بن حکم سلمی رضی اللہ عنہ کی ایک طویل حدیث میں روایت کیا ہے اس سے اللہ تعالیٰ کا ذاتی علو نہایت صراحت کے ساتھ ثابت ہو رہا ہے، کیونکہ حرف استفہام اَیْنَ کے ساتھ مکان کے بارے میں سوال کیا گیا ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جب اس عورت سے پوچھا کہ اللہ کہاں ہے اور اس نے اس کا یہ جواب دیا کہ وہ آسمان میں ہے، تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کے آسمان میں ہونے کی تائید فرمائی اور آپ نے جو یہ فرمایا: ’’اسے آزاد کر دو، یہ مومنہ ہے۔‘‘ تو اس سے معلوم ہوا کہ کوئی شخص اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتا جب تک یہ اقرار نہ کرے اور یہ عقیدہ نہ رکھے کہ اللہ تعالیٰ آسمان میں ہے۔ کتاب اللہ اور سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں مختلف انواع واقسام کے ایسے دلائل موجود ہیں جن کا تعلق سماع اور خبر سے ہے، اورجو اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اپنی ذات پاک کے ساتھ اپنی ساری مخلوق کے اوپر ہے اس بارے میں دلائل اس قدر زیادہ ہیں کہ ان سب کو اس جگہ بیان کرنا ممکن نہیں۔ ان نصوص کے تقاضے کے مطابق سلف صالحین رحمہم اللہ نے بالاجماع اللہ کے لیے ذاتی علو کو ثابت کیا ہے اور کہا ہے کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ اپنی ذات کے ساتھ اپنی ساری مخلوق سے اوپر اور بلند ہے جیسا کہ ان کا اس بات پر بھی اجماع ہے کہ معنوی طور پر بھی، یعنی اپنی صفات کے اعتبار سے بھی اللہ تعالیٰ کی ذات بلند و بالا اور ارفع و اعلیٰ ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿وَلَہُ الْمَثَلُ الْاَعْلیٰ فِی السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ وَ ہُوَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ، ﴾ (الروم:۲۷) ’’اور آسمانوں اور زمین میں اس کی شان نہایت بلند ہے اور وہ غالب، حکمت والا ہے۔‘‘ اور فرمایا: