کتاب: فتاوی ارکان اسلام - صفحہ 75
جا سکتا جس کے بارے میں معلوم ہو کہ اس کی نیت اچھی اور دین داری واتباع سنت میں اس کا قدم راسخ ہے اور اگر یہاں گمراہی سے مراد قائل کی مذمت کے بغیر صرف راہ راست کی مخالفت ہو تو اس میں کوئی حرج نہیں کیونکہ اس طرح کی گمراہی مطلق ضلالت نہیں ہے کیونکہ اس نے طریقہ صحیح استعمال کیا ہے، یعنی حق تک پہنچنے کے لیے اس نے اجتہاد سے کام لیا ہے، لیکن اس کا نتیجہ چونکہ حق کے خلاف ہے، لہٰذا اسے گمراہ کہا جا سکتا ہے۔ اس تفصیل سے اشکال اور شک و شبہ دور ہو جاتا ہے۔ واللّٰه المستعان
کیا اسمائے الہٰی میں تحریف ،تعطیل یا تمثیل کی گنجائش ہے ؟
سوال ۲۹: اللہ تعالیٰ کے اسماء و صفات کے بارے میں اہل سنت والجامعت کا کیا عقیدہ ہے؟ اسم اور صفت میں کیا فرق ہے؟ کیا اسم کے ثبوت سے صفت کا اور صفت کے ثبوت سے اسم کا ثبوت بھی لازم آتا ہے؟
جواب :اللہ تعالیٰ کے اسماء وصفات کے بارے میں اہل سنت والجماعت کا عقیدہ یہ ہے کہ ان تمام اسماء و صفات کو کسی تحریف، تعطیل، تکییف یا تمثیل کے بغیر اللہ تعالیٰ کے لیے ثابت کیا جائے جن کا اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات پاک کے لیے خود اثبات فرمایا ہے۔
اسم اور صفت میں فرق یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جو اپنا نام رکھا ہے اسے اسم کہا جاتا ہے اور صفت وہ ہے جس کے ساتھ اس نے اپنی توصیف بیانی فرمائی ہے اور ان دونوں میں فرق بالکل ظاہر وعیاں ہے۔
اسم کی حیثیت اللہ تعالیٰ کے لیے علم کی ہوتی ہے اور وہ صفت کو بھی اپنے دامن میں سموئے ہوتا ہے، لہٰذا اسم کے اثبات سے صفت کا اثبات بھی لازم آتا ہے، اس کی مثال ہے: ﴿اِنَّ اللّٰہَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ﴾ اس میں اسم ’’غفور‘‘ صفت مغفرت کو اور اسم ’’رحیم‘‘ صفت رحمت کو مستلزم ہے، لیکن اتناضرورہے کہ اثبات صفت سے اثبات اسم لازم نہیں آتا، مثلاً: اللہ تعالیٰ کے لیے صفت کلام تو ثابت ہے لیکن اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ ہم اللہ تعالیٰ کے لیے اسم ’’متکلم‘‘ بھی ثابت کریں، تومعلوم یہ ہوا کہ صفات کے اندرزیادہ وسعت ہے کیونکہ ہر اسم صفت کو تو متضمن ہے لیکن ہر صفت اسم کو متضمن نہیں ۔
اسمائے الہٰی ننانوے تک محدود نہیں
سوال ۳۰: کیا اللہ تعالیٰ کے اسماء محصور و(محدود) ہیں؟
جواب :اللہ تعالیٰ کے اسماء کسی معین عدد کے ساتھ محصور نہیں ہیں جس کی دلیل یہ صحیح حدیث ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم یہ دعا کیا کرتے تھے:
((اَللّٰہُمَّ إِنِّی عَبْدُکَ وَابْنُ عَبْدِکَ وَابْنُ أَمَتِکَ نَاصِیَتِی بِیَدِکَ مَاضٍ فِیَّ حُکْمُکَ عَدْلٌ فِیَّ قَضَاؤُکَ أَسْأَلُکَ بِکُلِّ اسْمٍ ہُوَ لَکَ سَمَّیْتَ بِہِ نَفْسَکَ َ أَوْ أَنْزَلْتَہُ فِی کِتَابِک أوعلمتہ أحدا من خلقکَ أَوْ اسْتَأْثَرْتَ بِہِ فِی عِلْمِ الْغَیْبِ عِنْدَکَ)) (مسند احمد: ۱/۳۹۱۔)
’’اے اللہ! میں تیرا بندہ ہوں، تیرے بندے کا بیٹا ہوں، تیری باندی کا فرزندأرجمند ہوں، میری پیشانی تیرے ہاتھ میں ہے، مجھ پر تیرا ہی حکم چلتا ہے، میرے بارے میں تیرا فیصلہ انصاف پر مبنی ہے، میں تیرے ہر اس نام کے وسیلے سے تجھ سے دعا کرتا ہوں جس سے تو نے اپنی ذات پاک کوموسوم کیا ہے یا جو تو نے اپنی مخلوق میں سے کسی کو بھی سکھایا ہے یا جس کو تو نے اپنی کتاب میں نازل کیا ہے یا جسے تو نے علم غیب میں اپنے ہی پاس رکھنے کو ترجیح دی ہے۔‘‘