کتاب: فتاوی ارکان اسلام - صفحہ 72
’’بنی آدم کے دل، رحمن کی انگلیوں میں سے دوانگلیوں کے درمیان ہیں۔‘‘ اور حدیث: ((اَلْحَجَرُ الْاَسْوَدُ یَمِیْنُ اللّٰہِ فِی الْاَرْضِ)) (ضعیف: مسند الفردوس للدیلمی: ۲/۱۵۹، حدیث: ۲۸۰۷، ۲۸۰۸ وتاریخ بغداد: ۳۲۸ الضعیفۃ: ۲۲۳۔) ’’حجر اسود سرزمین کائنات پر اللہ کا دایاں ہاتھ ہے۔‘‘ اور آیت کریمہ: ﴿وَہُوَ مَعَکُمْ اَیْنَ مَا کُنْتُمْ﴾ (الحدید: ۴) ’’اور تم جہاں کہیں ہو وہ تمہارے ساتھ ہے۔‘‘ کی تاویل کی ہے؟ اس کے جواب میں ہم عرض کریں گے کہ امام احمد رحمہ اللہ کے بارے میں یہ کہنا صحیح نہیں ہے کہ انہوں نے مذکورہ دو حدیثوں کی تاویل کی ہے۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’ابو حامد غزالی رحمہ اللہ نے جو یہ بیان کیا ہے کہ امام احمد رحمہ اللہ نے تین چیزوں کی تاویل کی ہے:٭ حجر اسود زمین میں اللہ تعالیٰ کا دایاں ہاتھ ہے۔٭ بندوں کے دل رحمان کی انگلیوں میں سے دو انگلیوں کے درمیان ہیں۔ ٭ اورمیں یمن کی طرف سے رحمان کی سانس کو محسوس کرتا ہوں۔ امام احمد رحمہ اللہ کی طرف یہ ایک جھوٹی بات منسوب ہے، کسی نے سند کے ساتھ اس بات کو امام احمد رحمہ اللہ سے نقل نہیں کیا ہے اور امام احمد رحمہ اللہ کے اصحاب میں سے بھی کوئی نہیں جس نے اس بات کو ان سے نقل کیا ہو۔‘‘[1] اور ارشاد باری تعالیٰ: ﴿وَہُوَ مَعَکُمْ اَیْنَ مَا کُنْتُمْ﴾ (الحدید: ۴) ’’اور تم جہاں کہیں ہو وہ تمہارے ساتھ ہے۔‘‘ اس کی امام احمد رحمہ اللہ نے تاویل نہیں کی، بلکہ اس آیت کریمہ کی اس کے بعض لوازمات کے ساتھ امام احمد رحمہ اللہ نے تفسیر کی ہے امام احمد رحمہ اللہ ان جہمیہ کی تردید میں نہایت ممتاز مقام کے حامل ہیں جنہوں نے اصلی مراد کے خلاف اس آیت کریمہ کی تفسیر کی ہے، کیونکہ ان کا گمان کے مطابق اس آیت کا تقاضا یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ بذاتہ ہر جگہ موجود ہے، جبکہ اللہ تعالیٰ ان کی اس بات سے پاک ہے، اس موقعہ سے امام احمد رحمہ اللہ نے بیان فرمایا ہے کہ معیت یہاں مخلوق کے احاطہ کے معنی میں ہے اور احاطہ جن چیزوں کے ساتھ کیا ہے ان میں ایک چیز علم بھی ہے، کیونکہ معیت کا تقاضا حلول واختلاط نہیں ، بلکہ اس کے معنی ہر جگہ اس کے حسب حال اور موقعہ ومحل کے اعتبارسے ہوں گے، اس لیے کہا جاتا ہے: (سَقَانِیْ لَبَنًا مَعَہٗ مَائٌ) ’’اس نے مجھے دودھ پلایا جس کے ساتھ پانی بھی تھا۔‘‘ اور (صَلَّیْتُ مَعَ الْجَمَاعَۃِ) ’’میں نے جماعت کے ساتھ نماز پڑھی۔‘‘ اور (فُلَانٌ مَعَہٗ زَوْجَتُہٗ) ’’فلاں شخص کے ساتھ اس کی بیوی ہے۔‘‘
[1] فتاوی: ۵/۳۹۸ جمع وترتیب ابن قاسم۔