کتاب: فتاوی ارکان اسلام - صفحہ 67
آپ جب یہ دم فرماتے تو مریض صحت یاب ہو جاتا تھا۔ اس سلسلہ میں مسنون دعاؤں میں سے ایک مشروع دعا یہ بھی ہے:
((بِسْمِ اللّٰہِ اَرْقِیْکَ مِنْ کلُ دائٍ یُؤْذِیْکَ، مِنْ شَرِّ کُلِّ نَفْسٍ اَوْ عَیْنٍ حَاسِدٍ، اَللّٰہُ یَشْفِیْکَ، بِسْمِ اللّٰہِ اَرْقِیْکَ)) (صحیح مسلم، السلام، باب الطب، والمرض والرقی، ح: ۲۱۸۶۔)
’’اللہ تعالیٰ کے پاک نام کے ساتھ میں تجھے ہر اس چیز سے دم کرتا ہوں جو تجھے تکلیف دے اور ہر نفس کے شراور فتنہ سے یا انسان کے حسد کرنے والی نظربد کے شر سے اللہ تجھے شفا دے، میں اللہ کے نام کے ساتھ تجھے دم کرتا اور جھاڑتا ہوں۔‘‘
دم کی ایک صورت یہ بھی ہے کہ انسان اپنے جسم میں درد کی جگہ پر ہاتھ رکھ کر یہ پڑھے:
((أَعُوذُ بِاللّٰہِ وَعزتہِ مِنْ شَرِّمَا اَجِدُ وَاُحَاذِرُ)) (صحیح مسلم، السلام، باب استحباب وضع یدہ علی موضع الالم مع الدعاء، ح: ۲۲۰۲۔)
’’میں اللہ تعالیٰ اور اس کی عزت وشان وشوکت کی پناہ پکڑتا ہوں اس تکلیف کے شر سے جو مجھے ہو رہی ہے اور جس سے میں ڈررہا ہوں یاخوف زدہ ہوں۔‘‘
علاوہ ازیں اہل علم نے اس سلسلہ میں وارد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اور بھی کئی احادیث ذکر کی ہیں۔
جہاں تک آیات واذکار کے لکھ کر لٹکانے کا حکم ہے، تو اس بارے میں اہل علم میں اختلاف ہے۔
بعض نے اس کی اجازت دی ہے اور بعض نے اسے ممنوع قرار دیا ہے۔ زیادہ صحیح بات یہی ہے کہ یہ ممنوع ہے، کیونکہ یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں ہے اور ثابت یہ ہے کہ پڑھ کر مریض کو دم کیا جائے۔ آیات یا دعاؤں کا لکھ کر مریض کے گلے میں لٹکانا یا اس کے ہاتھ پر باندھنا یا اس کے تکیے کے نیچے رکھنا، یہ ان جیسی چیزوںکا راجح قول کے مطابق، امور ممنوعہ میں شمارہوتا ہے کیونکہ ان ثبوت نہیں ہے۔ شریعت کی اجازت کے بغیر اگر کوئی شخص کسی امر کو کسی دوسرے امر کا سبب قرار دیتا ہے تو اس کا یہ عمل بھی شرک ہی کی ایک صورت ہے، کیونکہ بایں طورکسی ایسی بات کو سبب قرار دینا ہے جسے اللہ تعالیٰ نے سبب قرار نہیں دیا ہے۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم معوذات پڑھ کر خود کودم کیا کرتے تھے
سوال ۲۵: کیا دم کرنا توکل کے منافی عمل ہے؟
جواب :توکل کے معنی یہ ہیں کہ جلب منفعت اوردفع مضرت کے لیے اللہ تعالیٰ کی ذات پر سچا اعتماد کرنا ان اسباب ووسائل کا سہارا پکڑتے ہوئے جن کے اختیار کرنے کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے۔ توکل یہ نہیں کہ اسباب اختیار کیے بغیر اللہ تعالیٰ پر بھروسا کیا جائے۔ اسباب کے بغیر اللہ تعالیٰ پر اعتماد کرنا، اللہ تعالیٰ کی ذات اور اس کی حکمت پر طعن کرنا ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے مسَبَّبَات کو اسباب کے ساتھ مربوط قرار دیا ہے۔ یہاں پر سوال یہ پیداہوتا ہے کہ لوگوں میں اللہ تعالیٰ کی ذات پاک پر سب سے زیادہ توکل کرنے والا کون ہے؟
اس کا جواب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ذات پاک پر سب سے زیادہ توکل کرنے والے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں، تو پھر سوال یہ ہے کہ کیا نقصان سے بچنے کے لیے آپ اسباب استعمال کرتے تھے یا نہیں؟ اس کا جواب یہ ہے کہ ہاں آپ اسباب استعمال فرمایا کرتے تھے۔ جب جنگ کے لیے تشریف لے جاتے تو دشمن کے تیروں سے بچنے کے لیے زرہیں زیب تن فرمایا کرتے تھے۔ غزوۂ احد میں آپ نے دو زرہیں زیب تن فرمائیں تاکہ پیش آنے والے خطرات سے بچنے کی تیاری کی جا سکے، تو معلوم ہوا کہ اسباب اختیار کرنا