کتاب: فتاوی ارکان اسلام - صفحہ 64
جواب :مومن کے لیے واجب ہے کہ وہ اپنے دل کو اللہ عزوجل کے ساتھ وابستہ کیے رکھے اور جلب منفعت اور دفع مضرت کے لیے ذات باری تعالیٰ پر سچا اعتماد کرے کیونکہ اللہ وحدہ کے ہاتھ میں آسمانوں اور زمین کی بادشاہت ہے اور تمام معاملات اسی کی طرف لوٹتے ہیں، جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿وَ لِلّٰہِ غَیْبُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ وَ اِلَیْہِ یُرْجَعُ الْاَمْرُ کُلُّہٗ فَاعْبُدْہُ وَ تَوَکَّلْ عَلَیْہِ وَ مَا رَبُّکَ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُوْنَ، ﴾ (ہود: ۱۲۳) ’’اور آسمانوں اور زمین کی چھپی چیزوں کا علم اللہ ہی کو ہے اور تمام امور اسی کی طرف لوٹائے جاتے ہیں، لہٰذا اسی کی عبادت کرو اور اسی پر بھروسا رکھواور جو کچھ تم کر رہے ہو تمہارا پروردگار اس سے بے خبر نہیں۔‘‘ موسیٰ علیہ السلام نے اپنی قوم سے فرمایا تھا: ﴿یٰقَوْمِ اِنْ کُنْتُمْ اٰمَنْتُمْ بِاللّٰہِ فَعَلَیْہِ تَوَکَّلُوْٓا اِنْ کُنْتُمْ مُّسْلِمِیْنَ، فَقَالُوْا عَلَی اللّٰہِ تَوَکَّلْنَا رَبَّنَا لَا تَجْعَلْنَا فِتْنَۃً لِّلْقَوْمِ الظّٰلِمِیْنَ، وَ نَجِّنَا بِرَحْمَتِکَ مِنَ الْقَوْمِ الْکٰفِرِیْنَ، ﴾(یونس: ۸۴۔۸۶) ’’اے میری قوم! اگر تم اللہ پر ایمان لائے ہو تو اگر (دل سے) فرمانبردار ہو تو اسی پر بھروسا رکھو۔ تب وہ بولے کہ ہم اللہ ہی پر بھروسا رکھتے ہیں، اے ہمارے پروردگار! ہم کو ظالم لوگوں کے ہاتھوں آزمائش میں نہ ڈال اور اپنی رحمت سے قوم کفار سے نجات بخش۔‘‘ اور ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿وَ عَلَی اللّٰہِ فَلْیَتَوَکَّلِ الْمُؤْمِنُوْنَ، ﴾ (آل عمران: ۱۶۰) ’’اور مومنوں کو چاہیے کہ اللہ ہی پر بھروسا رکھیں۔‘‘ اور فرمایا: ﴿وَمَنْ یَّتَوَکَّلْ عَلَی اللّٰہِ فَہُوَ حَسْبُہٗ اِنَّ اللّٰہَ بَالِغُ اَمْرِہٖ قَدْ جَعَلَ اللّٰہُ لِکُلِّ شَیْئٍ قَدْرًا، ﴾ (الطلاق: ۳) ’’اور جو اللہ پر بھروسا رکھے گا تو وہ اس کو کافی ہوگا۔ بلا شبہ اللہ اپنے کام کو (جو وہ کرنا چاہتا ہے) پورا کر دیتا ہے، اللہ نے ہر چیز کا اندازہ مقرر کر رکھا ہے۔‘‘ مومن پر واجب ہے کہ وہ اپنے رب پر، جو آسمانوں اور زمین کا پروردگار ہے، اعتماد کرے اور اس کے ساتھ حسن ظن رکھے اور ان شرعی، قدری اور حسی اسباب کو بھی اختیار کرے جنہیں اختیار کرنے کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے کیونکہ خیر کو لانے والے اور شر کو دور کرنے والے اسباب اختیار کرنا بھی اللہ تعالیٰ اور اس کی حکمت پر ایمان لانا ہے اوراسباب ووسائل کا اختیارکرنا توکل کے منافی نہیں ،ذرا دیکھئے تو صحیح! سید المتوکلین حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم بھی شرعی وقدری اسباب اختیار فرمایا کرتے تھے، سوتے وقت آپ سورۂ اخلاص اور معوذ تین پڑھ کر اپنے آپ کو دم کیا کرتے تھے، جنگ میں زرہ پہنا کرتے تھے۔ جب مشرکوں کی جماعتوں نے جمع ہو کر مدینہ منورہ چڑھائی کی تو آپ نے مدینہ کی حفاظت کے لیے اس کے اردگرد خندق کھودی تھی۔ جن اسباب کو انسان جنگوں کی تباہ کاریوں سے اپنے آپ کو بچانے