کتاب: فتاوی ارکان اسلام - صفحہ 62
’’اس کا تمہیں کچھ گناہ نہیں کہ (حج کے دنوں میں بذریعہ تجارت) اپنے پروردگار سے روزی طلب کرو۔‘‘
اگر اغلب نیت عبادت کی نہ ہو تو اسے آخرت میں اس کا کوئی ثواب نہیں ملے گا، اسے اس کا بدلہ دنیا ہی میں مل جائے گا اور یہ بھی خدشہ ہے کہ وہ اس کے لئے گناہ گار بننے کا باعث بن جائے کیونکہ اس نے عبادت کو، جو اعلیٰ مقصود ہے، حقیر دنیا کے حصول کا وسیلہ کے طورپر اختیارکیا۔ ایسا شخص گویا کہ ان لوگوں کی طرح ہے جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:
﴿وَ مِنْہُمْ مَّنْ یَّلْمِزُکَ فِی الصَّدَقٰتِ فَاِنْ اُعْطُوْا مِنْہَا رَضُوْا وَ اِنْ لَّمْ یُعْطَوْا مِنْہَآ اِذَا ہُمْ یَسْخَطُوْنَ، ﴾ (التوبۃ: ۵۸)
’’اور ان میں بعض ایسے بھی ہیں کہ (تقسیم) صدقات میں تم پر طعنہ زنی کرتے ہیں اگر ان کو اس میں سے (خاطر خواہ) مل جائے تو خوش رہیں اور اگر (اس قدر) نہ ملے تو جھٹ خفا ہو جاتے ہیں۔‘‘
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک شخص نے عرض کیا: یا رسول اللہ! ایک آدمی جہاد کا ارادہ رکھتا ہے مگر جہاد سے اس کا مقصود دنیوی مال کا حصول ہے، تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
((لَا اَجْرَ لَہُ)) (سنن ابی داود، الجہاد، باب فیمن یغزو ویلتمس الدنیا، ح: ۲۵۱۶ وسنن النسائی، الجہاد، باب من غزا یلتمس الاجر والذکر، ح: ۳۱۴۲۔)
’’اسے کوئی اجر نہیں ملے گا۔‘‘
اس شخص نے اپنے سوال کو تین بار دہرایا ہر بار نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی فرمایا: ’’اسے کوئی اجر نہیں ملے گا۔‘‘ صحیحین میں حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
((مَنْ کَانَتْ ہِجْرَتُہُ لِدُنْیَا یُصِیْبُہَا، اَوِ امْرَأَۃٍ یَتَزَوَّجُہَا، فَہِجْرَتُہُ اِلٰی مَا ہَاجَرَ اِلَیْہِ)) (صحیح البخاری، بدء الوحی، باب کیف کان بدا ء الوحی الی رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ، ح:۱ وصحیح مسلم، الامارۃ، باب قولہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم انما الاعمال بالنیۃ… ح:۱۹۰۷ واللفظ لمسلم۔)
’’جس شخص کی ہجرت دنیا کے حصول یا کسی عورت سے شادی کرنے کے لیے ہو تو اس کی ہجرت اس طرف ہوگی جس طرف اس نے ہجرت کی۔‘‘
اگر اس کے نزدیک دونوں امر مساوی ہوں یعنی نہ تو عبادت کی نیت غالب ہو اور نہ غیر عبادت کی تو اس کا معاملہ محل نظر ہے۔ زیادہ صحیح یہی معلوم ہوتا ہے کہ اس صورت میں اسے کوئی ثواب نہیں ملے گا، اس کی مثال اس شخص کی طرح ہے، جو عمل اللہ کے لیے بھی کرتا ہے اور غیر اللہ کے لیے بھی۔
اس قسم اور اس سے پہلی قسم میں فرق یہ ہے کہ اس سے پہلے قسم میں غیر عبادت کی غرض بالضرورۃ حاصل ہے اور اس کا ارادہ اس کے عمل کے ساتھ بالضرورۃ وجود پذیرہواہے مرادیہ ہے کہ اس نے اس دنیوی امر کا ارادہ کیا جو اس کے عمل کا قدرتی تقاضا ہے۔
اگر کہا جائے کہ اس قسم میں یہ جاننے کے لیے معیار کیا ہے کہ عبادت کا پہلو زیادہ غالب ہے یا غیرعبادت کا؟ اس کے جواب میں ہم یہ کہیں گے کہ معیار یہ ہے، خواہ حاصل ہو یا نہ ہو کہ عبادت کے سوا اس کا کوئی دوسرا مقصود ہے ہی نہیں تو اس کے معنی یہ ہیں کہ