کتاب: فتاوی ارکان اسلام - صفحہ 447
کا مقابلہ نہ کر سکنے والوں کے لیے یہ وقت قربانی کی رات کے نصف سے شروع ہوتا ہے۔ ایام تشریق میں اس کی رمی کا وقت وہی ہے جو اس کے ساتھ والے دونوں جمروں کی رمی کا وقت ہے کہ وہ زوال سے شروع ہو کر، ساتھ والی رات کے طلوع فجر ہوتے ہی ختم ہو جاتا ہے۔ البتہ اگر ایام تشریق میں سے آخری دن ہو تو رات کو رمی جائز نہیں کیونکہ ایام تشریق تیرہویں تاریخ کے غروب آفتاب کے ساتھ ختم ہو جاتے ہیں۔ یاد رہے رمی دن کے وقت افضل ہے، البتہ آج کل حاجیوں کی کثرت اور ایک دوسرے کی پرواہ نہ کرنے کی وجہ سے اگر ہلاکت یا نقصان سے شدید مشقت کا اندیشہ ہو تو پھر رات کو رمی کرنے میں بھی کوئی حرج نہیں، بلکہ اس طرح کے کسی اندیشے کے بغیر بھی رات کو رمی کرنے میں کوئی حرج نہیں لیکن افضل یہ ہے کہ احتیاط کے پیش نظر رات کو رمی نہ کی جائے اِلاَّیہ کہ کسی حاجت وضرورت کی وجہ سے ایسا کیا جائے تو کوئی مضائقہ نہیں۔ جہاں تک اس کے وقت قضا کا تعلق ہے، تو جب دوسرے دن کی فجر طلوع ہو جائے، تو اس کا وقت قضا ہوجائے گا۔ سوال ۵۲۱: کیا حاجی کے لیے یہ جائز ہے کہ وہ حج کی سعی، طواف افاضہ سے پہلے کر لے؟ جواب :اگر حاجی مفرد یا قارن ہو تو اس کے لیے حج کی سعی طواف افاضہ سے پہلے جائز ہے اسے وہ طواف قدوم کے بعد کر سکتا ہے، جیسا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور ان صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے کیا تھا، جو قربانی کے جانور اپنے ساتھ لائے تھے۔ اگر حاجی متمتع ہو تو اس پر دو سعی لازم ہیں: پہلی سعی مکہ مکرمہ میں آمد کے وقت اور یہ عمرے کی سعی ہوتی ہے، چنانچہ عمرے کے لیے وہ طواف اور سعی، کرکے بال کٹواتا ہے اور اس کی دوسری سعی حج کے لیے ہوتی ہے اور افضل ہے کہ یہ سعی طواف افاضہ کے بعد ہو کیونکہ اصولا سعی طواف کے بعد ہوتی ہے، تاہم اگر وہ اسے طواف سے پہلے کرے، تو راجح قول کے مطابق پھر بھی کوئی حرج نہیں کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے جب یہ سوال کیا گیا کہ میں نے طواف سے پہلے سعی کرلی ہے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا: ((لَا حَرَجَ))( صحیح البخاری، الحج، باب اذا رمی بعد ما امسی، ح: ۱۷۳۴ وصحیح مسلم، الحج، باب جواز تقدیم الذبح علی الرمی، ح: ۱۳۰۶، وسنن ابی داود، المناسک باب فی من قدم شیئا… ح: ۲۰۱۵ واللفظ لہ۔) ’’کوئی حرج نہیں۔‘‘ حاجی کو عید کے دن ترتیب کے ساتھ یہ پانچ کام کرنے ہوتے ہیں: (۱)جمرہ عقبہ کی رمی (۲)قربانی (۳)بالوں کو منڈوانا یا کٹوانا (۴)بیت اللہ کا طواف (۵)صفا و مروہ کی سعی۔ اگر کوئی حاجی قارن یا مفرد ہو اور اس نے طواف قدوم کے بعد سعی کر لی ہو تو پھر اس پر دوبارہ سعی واجب نہیں ہے۔ افضل یہ ہے کہ مذکورہ بالا پانچوں کام ترتیب کے ساتھ کیے جائیں اور اگر ان میں سے بعض کو خصوصاً بوقت ضرورت آگے پیچھے کر لیا جائے، تو کوئی حرج نہیں۔ یہ اللہ کی طرف سے رحمت اور آسانی ہے۔ فللّٰه الحمد رب العالمین سوال ۵۲۲: کیا طواف سے پہلے سعی کا جواز صرف یوم عید کے ساتھ خاص ہے؟ جواب :صحیح بات یہ ہے کہ اس سلسلہ میں عید اور غیر عید کے دن میں کوئی فرق نہیں۔ عید کے دن کے بعد بھی سعی کو طواف سے پہلے کرنا جائز ہے کیونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے جب ایک شخص نے یہ پوچھا کہ میں نے طواف سے پہلے سعی کر لی ہے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((لَا حَرَجَ))( صحیح البخاری، الحج، باب اذا رمی بعد ما امسی، ح: ۱۷۳۴ وصحیح مسلم، الحج،