کتاب: فتاوی ارکان اسلام - صفحہ 445
شدید ہجوم کے عالم میں، جب کہ جان بچانے کی بھی فکر ہو، یا پھر اسے آخر وقت حتیٰ کہ رات تک مؤخر کر دے اور اطمینان و حضور قلب کے ساتھ کنکریاں مارے تو یہ تاخیر کرنا اس کے لئے افضل ہے۔ اسی لیے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اہل خانہ کے کمزور افراد کو رخصت عطا فرما دی تھی کہ وہ رات کے آخری حصے میں مزدلفہ سے چلے جائیں تاکہ انہیں اس ہجوم کی وجہ سے تکلیف نہ ہو طلوع فجر کے بعد سب لوگوں کے جمع ہونے کی وجہ سے جس کے وقوع پذیر ہونے کا اندیشہ ہے۔ اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ رمی جمار میں کسی کو وکیل بنانا جائز نہیں کیونکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿وَ اَتِمُّوا الْحَجَّ وَ الْعُمْرَۃَ لِلّٰہِ﴾ (البقرۃ: ۱۹۶) ’’اور اللہ (کی خوشنودی) کے لیے حج اور عمرے کو پورا کرو ۔‘‘ اس مسئلے میں مردوں اور عورتوں میں کوئی فرق نہیں، لہٰذا جب یہ بات واضح ہوگئی کہ رمی جمرات عبادت ہے اور جس مرد یا عورت کو اس کی قدرت ہو اس کے لیے کسی کو اپنی طرف سے نائب بنانا جائز نہیں۔ بلکہ اس کے لیے واجب ہے کہ وہ خود کنکریاں مارے، البتہ اگر کوئی مرد یا عورت بیمار ہو یا کوئی عورت حاملہ ہو اور اس کے حمل کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہو تو اس کی طرف سے کسی کو وکیل مقرر کیا جا سکتا ہے۔ یہ عورت جس نے قدرت کے باوجود خود رمی نہیں کی، میری رائے میں اس کے لیے احتیاط یہ ہے کہ اس ترک واجب کی وجہ سے فدیے کا ایک جانور ذبح کر کے مکہ کے فقرا میں تقسیم کر دے۔ سوال ۵۱۷: ایک حاجی نے تیرہ تاریخ کو مشرق کی جانب سے جمرہ عقبہ کو کنکریاں ماریں مگر پتھر حوض میں نہیں گرا، تو کیا اس کے لیے تمام رمی دوبارہ لازم ہے؟ جواب :اس کے لیے ساری رمی دوبارہ لازم نہیں ہے بلکہ صرف وہی لازم ہے جس میں اس نے غلطی کی، لہٰذا اسے فقط جمرہ عقبہ کی رمی دوبارہ کر کے درست طریقے سے رمی کرنی ہوگی مشرق کی جانب سے کی گئی وہ رمی درست نہ ہوگی جس کی کنکری حوض میں نہیں گرتی جو کہ رمی کی جگہ ہے۔ اگر وہ مشرقی جانب سے پل کے اوپر سے رمی کرتا تو وہ درست ہوتی کیونکہ ا س طرح کنکری حوض ہی میں گرتی ہے۔ سوال ۵۱۸: اگر ماری گئی سات کنکریوں میں سے ایک یا دو حوض میں نہ گریں اور ایک یا دو دن گزر جائیں تو کیا وہ اس جمرہ کی دوبارہ رمی کرے؟ اور اگر دوبارہ رمی کرنا لازم ہو تو کیا وہ اس کے بعد والی کنکریاں بھی دوبارہ مارے؟ جواب :جب جمرات میں سے ایک یا دو جمروں کی رمی باقی ہو یا زیادہ واضح طور پر یوں کہیے کہ کسی ایک جمرے کی ایک یا دو کنکریاں باقی ہوں، تو فقہاء کہتے ہیں کہ اگر جمرے کی آخری کنکریاں ہوں تو وہ صرف کمی کو پورا کر لے۔ پہلی کنکریوں کو دوبارہ مارنا لازم نہ ہوگا اور اگر یہ آخری کنکری نہیں ہے، تو وہ کمی کو پورا کرے، پھر بعد والی کنکریاں بھی مارے۔ میرے نزدیک درست بات یہ ہے کہ وہ صرف کمی کو پورا کرے، بعد والی کنکریوں کا اعادہ لازم نہیں ہے کیونکہ جہالت یا نسیان کی وجہ سے ترتیب ساقط ہو جاتی ہے۔ اس شخص نے دوسری کنکری پھینکی ہے اور اس کا خیال ہے کہ پہلی کوئی کنکری اس کے ذمہ نہیں ہے اور یہ از راہ جہالت یا نسیان ہے، لہٰذا ہم اسے کہیں گے کہ جو کنکریاں کم ہیں وہ مار لو، بعد والی کنکریاں مارنا واجب نہیں ہے۔ جو اب ختم کرنے سے پہلے میں اس بات کی طرف توجہ مبذول کرانا ضروری سمجھتا ہوں کہ کنکریاں وہاں پھینکنی ہوتی ہیں جو کنکریوں کے جمع ہونے کی جگہ ہے۔ اس ستون کو کنکریاں مارنا مقصود نہیں ہے جوجگہ کی نشان دہی کے لیے کھڑا کیا گیا ہے۔ اگر کوئی شخص کنکریاں