کتاب: فتاوی ارکان اسلام - صفحہ 438
داود، المناسک، باب فی الرمل، ح: ۱۸۸۸، وجامع الترمذی، الحج، باب ماجاء کیف ترمی الجمار، ح: ۹۰۲، ومسند احمد: ۶/ ۶۴، واللفظ لہ)
’’بیت اللہ کے طواف، صفا و مروہ کی سعی اور رمی جمرات کو اللہ تعالیٰ کے ذکر کے لیے مقرر کیا گیا ہے۔‘‘
لہٰذا مومن کے لیے واجب ہے کہ وہ ان کتابوں سے پرہیز کرے، اپنی ضرورت وحاجت کے مطابق اللہ سے دعا کرے اور استطاعت وعلم کے مطابق اللہ تعالیٰ کا ذکر کرے، تو یہ اس سے بہتر ہے کہ ان کتابچوں سے دیکھ کر ایسی دعائیں پڑھے جن کے معنی وہ جانتا ہی نہیں۔ معنی کو جاننا تو دور کی بات، شاید وہ ان کے الفاظ بھی نہیں پڑھ سکتا۔
مناسک حج کے لیے کوئی مخصوص دعائیں نہیں ہیں
سوال ۵۰۴:کیا طواف وسعی اور دیگر مناسک حج کے لیے کوئی مخصوص دعائیں بھی ہیں؟
جواب :حج و عمرہ کی کوئی مخصوص دعا نہیں ہے بلکہ انسان جو چاہے دعا کر سکتا ہے، البتہ اگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت دعاؤں کو پڑھے تو وہ زیادہ افضل واکمل ہے، مثلاً: رکن یمانی اور حجر اسود کے درمیان یہ دعا پڑھے:
((رَبَّنَآ اٰتِنَا فِی الدُّنْیَا حَسَنَۃً وَّ فِی الْاٰخِرَۃِ حَسَنَۃً وَّ قِنَا عَذَابَ النَّارِ))( سنن ابی داود، المناسک، باب الدعاء فی الطواف، ح: ۱۸۹۳۔)
’’اے ہمارے پروردگار! ہم کو دنیا میں بھی نعمت عطا فرما اور آخرت میں بھی نعمت بخش اور ہمیں دوزخ کے عذاب سے محفوظ فرما۔‘‘
اسی طرح یوم عرفہ اور صفا و مروہ پر جو ذکر نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے، اسے اختیار کرنا افضل واکمل ہے۔ پس سنت سے جو دعائیں اسے معلوم ہوں، انہیں اختیار کرے اور جو معلوم نہ ہوں تو اپنے ذہن کے مطابق جو دعائیں چاہے پڑھ لے لیکن ان دعاؤں کو پڑھنا واجب نہیں بلکہ مستحب ہے۔ اس مناسبت سے میں یہ بھی کہنا چاہتا ہوں کہ حج و عمرہ کرنے والوں کے ہاتھوں میں موجود کتابچوں میں طواف کے ہر چکر کی جو مخصوص دعائیں لکھی ہیں، یہ بدعت ہیں اور ان میں بہت سے مفاسد ہیں۔ انہیں پڑھنے والے سمجھتے ہیں کہ یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ہیں، لہٰذا وہ انہی معین الفاظ کے ساتھ طواف کرنا ضروری سمجھتے ہیں۔ وہ انہیں پڑھتے تو ہیں مگر ان کے معنی نہیں جانتے اور ہر چکر کے لیے ایک دعا کو مخصوص کر لیتے ہیں اور اگر
چکر ختم ہونے سے پہلے دعا ختم ہو جائے، جیسا کہ مطاف میں ہجوم کے وقت ایسا ہوتا ہے، تو وہ چکر کے باقی حصے میں خاموش رہتے ہیں اور اگر دعا کے پورا ہونے سے پہلے چکر ختم ہو جائے تو باقی دعا ترک کر دیتے ہیں حتیٰ کہ اگر وہ ((اللّٰه م)) کے لفظ پر رکیں تو دعا کے باقی حصے کو نہیں پڑھتے۔ یہ سب نقصانات اس بدعت کی وجہ سے ہیں۔ اس طرح ان کتابچوں میں مقام ابراہیم کی جو خاص دعا لکھی ہوتی ہے، وہ بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں ہے۔ آپ جب مقام ابراہیم پر تشریف لائے تو آپ نے قرآن مجید کے یہ الفاظ پڑھے تھے:
﴿وَ اتَّخِذُوْا مِنْ مَّقَامِ اِبْرٰہِیْمَ مُصَلًّی﴾ (البقرۃ: ۱۲۵)
’’جس مقام پر ابراہیم کھڑے ہوئے تھے، اس کو نماز کی جگہ بنا لو۔‘‘
اور پھر آپ نے مقام ابراہیم کے پیچھے دو رکعتیں پڑھیں لیکن مقام ابراہیم ہی کی خاص دعا جو یہ لوگ بلندآوازسے پڑھتے ہیں اور نمازیوں کی نماز