کتاب: فتاوی ارکان اسلام - صفحہ 385
حاتم رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے کہ انہوں نے روزہ رکھا اور اپنے تکیے کے نیچے اونٹ کا گھٹنا باندھنے والی دو رسیاں رکھ لیں جن میں سے ایک سیاہ اور دوسری سفید تھی اور انہوں نے کھانا پینا شروع کر دیا حتیٰ کہ سفید رسی جب سیاہ سے واضح ہوگئی تو وہ کھانے سے رکے۔ جب صبح ہوئی تو انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر یہ سارا ماجرا بیان کیا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں سمجھایا کہ سفید اور سیاہ سے مراد معروف دھاگے نہیں ہیں بلکہ سفید دھاگے سے مراد دن کی سفیدی اور سیاہ دھاگے سے مراد رات کی سیاہی ہے مگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ کو اس روزے کی قضا کا حکم نہیں دیا تھا کیونکہ انہیں حکم کا علم نہیں تھا اور انہوں نے آیت کریمہ کے یہی معنی سمجھے۔ جہاں تک وقت کے بارے میں جہالت کا تعلق ہے، تو صحیح بخاری میں حضرت اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے: ((أَفْطَرْنَا عَلَی عَہْدِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَوْمَ غَیْمٍ ثُمَّ طَلَعَتِ الشَّمْسُ))( صحیح البخاری، الصوم، باب اذا افطر فی رمضان ثم طلعت الشمس، ح: ۱۹۵۹۔) ’’ہم نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں ایک ابر آلود دن میں روزہ افطار کیا تو پھر سورج نکل آیا۔‘‘ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو قضا ادا کرنے کا حکم نہیں دیا۔ اس صورت میں اگر قضا ادا کرنا واجب ہوتی تو آپ انہیں ضرور اس کا حکم دیتے اور اگر آپ نے انہیں حکم دیا ہوتا تو یہ بات امت تک ضرور پہنچی ہوتی کیونکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَ اِنَّا لَہٗ لَحٰفِظُوْنَ، ﴾ (الحجر: ۹) ’’بے شک یہ (کتاب) نصیحت ہم نے ہی اتاری ہے اور ہم ہی اس کے نگہبان ہیں۔‘‘ جب یہ بات اسباب کی فراوانی کے باوجود امت تک نہیں پہنچتی، تو معلوم ہوا کہ آپ نے اس کا صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو حکم نہیں دیا اور جب آپ نے انہیں قضا ادا کرنے کا حکم نہیں دیا تو معلوم ہوا کہ یہ واجب نہیں ہے۔ اسی طرح اگر کوئی سویا ہوا انسان بیدار ہو اور وہ یہ سمجھ کر کھانا پینا شروع کر دے کہ ابھی رات ہے اور بعد میں معلوم ہو کہ فجر تو طلوع ہو چکی تھی، تو اس پر ادائے قضا نہیں ہوگی کیونکہ اسے وقت کے بارے میں معلوم نہ تھا۔ ٭ دوسری شرط یہ ہے کہ اسے یاد ہو۔ یاد نسیان کی ضد ہے، لہٰذا اگر کوئی بھول کر کھا پی لے تو اس کا روزہ صحیح ہے، اس پر ادائے قضا لازم نہ ہوگی، کیونکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿رَبَّنَا لَا تُؤَاخِذْنَآ اِنْ نَّسِیْنَآ اَوْ اَخْطَاْنَا﴾ (البقرۃ: ۲۸۷) ’’اے ہمارے پروردگار! اگر ہم سے بھول یا چوک ہوگئی ہو تو ہم سے مواخذہ نہ کیجئے۔‘‘ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ میں نے ایسا ہی کیا۔ اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((مَنْ نَسِیَ وَہُوَ صَائِمٌ فَأَکَلَ أوَشَرِبَ فَلْیُتِمَّ صَوْمَہُ فَإِنَّمَا أَطْعَمَہُ اللّٰہُ وَسَقَاہُ))( صحیح البخاری، الصوم، باب اذا اکل او شرب ناسیا، ح: ۱۹۳۳ وصحیح مسلم، الصیام، باب اکل الناسی وشربہ وجماعۃ لا یفطر، ح: ۱۱۵۵ واللفظ لہ۔) ’’جو روزہ دار بھول کر کھا یا پی لے تو اسے اپنا روزہ پورا کرنا چاہیے، کیونکہ اسے اللہ تعالیٰ نے اسے کھلایا پلایا ہے۔‘‘ ٭ تیسری شرط قصد و ارادہ ہے، یعنی انسان نے اختیار سے اس فعل کو سر انجام دیا ہو اور اگر وہ غیر مختار تھا تو اس کا روزہ صحیح ہے،