کتاب: فتاوی ارکان اسلام - صفحہ 359
میں ہر اس شخص کو تنبیہ کرتا ہوں، جو مستحق زکوٰۃ نہ ہو مگر زکوٰۃ قبول کر لے اور میں اس سے کہتا ہوں کہ اگر تو نے زکوٰۃ لے لی، حالانکہ تو اس کا مستحق نہ تھا، تویاد رکھ تو حرام کھارہا ہے۔ والعیاذ باللّٰہ۔ بندے کو چاہیے کہ وہ اللہ سے ڈرے۔ اسی لئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: ((من یستغنی یغنہ اللّٰه وَمَنْ یَسْتَعْفِفْ یُعِفَّہُ اللّٰہُ ُ)) (صحیح البخاری، الزکاۃ، باب لا صدقۃ الا عن ظہر غنی، ح: ۱۴۲۷ وصحیح مسلم، الزکاۃ، باب فضل التعفف والصبر، ح: ۱۰۵۳ واللفظ لہ۔) ’’جو شخص بے نیازی اختیار کرے، اللہ اسے بے نیاز عطاء فردیتا ہے اورجو شخص عفت اختیار کرے اللہ اسے عفت وپاکی دے کر سرخروفرماتاہے۔‘‘ لیکن جب کوئی شخص آپ کی طرف ہاتھ پھیلائے اور آپ کا ظن غالب یہ ہو کہ یہ شخص مستحق ہے اور آپ اسے زکوٰۃ دے دیں تو آپ کی زکوٰۃ ادا ہو جائے گی اور آپ بری الذمہ ہو جائیں گے مگر بعد میں معلوم ہو کہ یہ شخص زکوٰۃ کا مستحق نہیں تھا، تو زکوٰۃ دوبارہ ادا نہیں کی جائے گی۔ اس کی دلیل اس شخص کا قصہ ہے جس نے مال صدقہ کرنا چاہا تو پہلے ایک زانی عورت کو دے دیا۔ صبح ہوئی تو لوگ باتیں کرنے لگے کہ آج رات ایک زانی عورت کو صدقہ دے دیا گیا ہے۔ اس نے کہا الحمد للہ، پھر اس نے دوسری رات صدقہ کیا تو صدقہ ایک چور کے ہاتھ پر رکھ دیا گیا۔ صبح ہوئی تو لوگ باتیں کرنے لگے کہ آج رات ایک چور کو صدقہ دے دیا گیا ہے، پھر اس نے تیسری رات ایک دولت مند آدمی کو صدقہ دے دیا۔ صبح ہوئی تو لوگ باتیں کرنے لگے کہ آج رات ایک دولت مند شخص کو صدقہ دے دیا گیا ہے۔ اس نے زانی عورت، چور اور دولت مند کو صدقہ دیے جانے پر الحمد للہ کہا۔ تواس سے کہا گیا کہ تیرا صدقہ قبول ہوگیا۔ ہو سکتا ہے کہ اس مال کی وجہ سے جو تو نے زانی عورت کو دیا ہے، وہ زنا سے باز آجائے، ہو سکتا ہے کہ چور اس مال کی وجہ سے چوری کو ترک کر دے اور ہو سکتا ہے کہ دولت مند شخص نصیحت حاصل کر کے خود بھی صدقہ کرنا شروع کر دے۔[1] بھائی! دیکھو اگر نیت صادق ہو تو اس پر کیسے ثمرات مرتب ہوتے ہیں، لہٰذا اگر آپ کسی ایسے شخص کو زکوٰۃ دے دیتے دیں جو آپ سے سوال کرے اور اسے دے دینے کے بعد معلوم ہو کہ جسے آپ نے فقیر سمجھا تھا وہ تو دولت مند شخص تھا تومغا لطہ کی بنیادپراس صورت میں زکوٰۃ دوبارہ ادا کرنا لازم نہیں ہے۔ محض تقسیم کنندہ مستحق زکوٰۃ نہیں بن سکتا سوال ۳۸۲: ایک دولت مند شخص نے اپنی زکوٰۃ ایک شخص کے پاس بھیجی اور اس سے کہا کہ تمہاری نظر میں جو مستحق ہوں، ان میں اسے تقسیم کر دو تو کیا یہ وکیل بھی عاملین زکوٰۃ میں شمار ہو کر زکوٰۃ کا مستحق ہوگا؟ جواب :یہ وکیل عاملین اور مستحقین زکوٰۃ میں سے نہیں گرداناجائے گا کیونکہ یہ تو ایک خاص شخص کا خاص وکیل ہے اور قرآنی اندازبیان ﴿وَالْعَامِلِیْنَ عَلَیْہَا﴾ میں شاید یہی رازپنہاں ہے۔ واللّٰہ اعلم ۔ کیونکہ حرف علیٰ ایک طرح سے ولایت کی ایک قسم کا فائدہ دیتا ہے گویا کہ عاملین، قائمین کے معنی میں ہیں، لہٰذا جو شخص کسی معین انسان کی طرف سے زکوٰۃ تقسیم کرنے میں نیابت کے فرائض انجام دیتا ہے، وہ عاملین زکوٰۃ میں شمار نہیں ہو سکتا۔
[1] صحیح البخاری، الزکاۃ، باب اذا تصدق علی غنی وہو لا یعلم، حدیث: ۱۴۲۱۔