کتاب: فتاوی ارکان اسلام - صفحہ 343
کے استقبال کے لیے دروازوں کو کھول رکھنا درست نہیں کیونکہ یہ طریقہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں معروف نہیں تھا حتیٰ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم أجمعین اہل میت کے یہاں جم گھٹا لگانے اور نوحہ کے کھانا مخصوص کرنے اور نوحہ ماتم کرنے کوگناہ کبیرہ میں شمار کرتے تھے کیونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے نوحہ کرنے اور نوحہ سننے والی عورت پر لعنت فرمائی ہے، نیز آپ نے فرمایا ہے: ((اَلنَّائِحَۃُ إِذَا لَمْ تَتُبْ قَبْلَ مَوْتِہَا تُقَامُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ وَعَلَیْہَا سِرْبَالٌ مِنْ قَطِرَانٍ وَدِرْعٌ مِنْ جَرَبٍ)) (صحیح مسلم، الجنائز، باب التشدید فی النیاحۃ، ح: ۹۳۴۔) ’’نوحہ کرنے والی عورت اگر اپنی موت سے پہلے توبہ نہ کرے، تو اسے قیامت کے دن اس طرح کھڑا کیا جائے گا کہ وہ گندھک (یاتارکول) کا کرتہ اور خارش کی اوڑھنی پہنے ہوئے ہوگی۔‘‘ ہم اللہ تعالیٰ سے عافیت کی دعا کرتے ہیں۔ میری مسلمان بھائیوں کو یہ نصیحت ہے کہ وہ ان بدعات کو ترک کردیں کیونکہ ان کے لئے اللہ تعالیٰ کے ہاں یہی بہتر اور باعث خیر ہے۔ میت کے لیے بھی یہی بہتر اورموزوں ہے اس لئے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ میت کو اس کے گھر والوں کے رونے اور نوحہ کرنے کی وجہ سے عذاب دیا جاتا ہے اور عذاب دیے جانے کے معنی یہ ہیں کہ اسے اس رونے اور نوحہ کرنے کی وجہ سے تکلیف ہوتی ہے۔ اس کے یہ معنی نہیں کہ اسے اتنی سزا ملے گی جتنی نوحہ و بکا کرنے والے کو سزا ملتی ہے کیونکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿وَ لَا تَزِرُ وَازِرَۃٌ وِّزْرَ اُخْرٰی﴾ (الانعام: ۱۶۴) ’’اور کوئی شخص کسی کے گناہ کا بوجھ نہیں اٹھائے گا۔‘‘ عذاب کے لفظ سے یہ لازم نہیں آتا کہ یہ سزا ہی کے معنی میں ہو۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((اَلسَّفَرُ قِطْعَۃٌ مِنْ الْعَذَابِ)) (صحیح البخاری، العمرۃ، السفر قطعۃ من العذاب، ح: ۱۸۰۴، وصحیح مسلم، الامارۃ، باب السفر قطعۃ من العذاب، ح: ۱۹۲۷۔) ’’سفر عذاب کا ایک ٹکڑا ہے۔‘‘ حالانکہ سفر سزا تو نہیں ہوکرتا۔ اس سے معلوم ہوا کہ غم و فکر وغیرہ کو بھی عذاب کہا جا سکتا ہے۔ لوگ بھی عموماً اس قسم کے الفاظ استعمال کرتے رہتے ہیں کہ میرے ضمیر نے مجھے عذاب دیا ہے یہ اور اس طرح کے الفاظ اس وقت استعمال کیے جاتے ہیں جب دل پر شدید غم وفکر کا ہجوم ہو۔ خلاصہ کلام یہ کہ میں اپنے بھائیوں کو یہ نصیحت کرتا ہوں کہ وہ اس قسم کی عادتیں ترک کر دیں جو انہیں اللہ تعالیٰ سے دور کر دیتی ہیں اور ان کے فوت شدہ عزیزوں کے لیے بھی تکلیف اور پریشانی کا باعث بنتی ہیں۔ ٭٭٭