کتاب: فتاوی ارکان اسلام - صفحہ 327
نماز عید اور اس کے مسائل
سوال ۳۲۹: عید کے دن مبارک باد دینے کے بارے میں کیا حکم ہے، کیا مبارک باد دینے کے لیے کوئی مخصوص الفاظ ہیں؟
جواب :عید کی مبارک باد دینا جائز ہے لیکن اس کے لیے کوئی مخصوص الفاظ وارد نہیں ہوئے ہیں۔ لوگوں کا جو بھی معمول ہو، وہ جائز ہے بشرطیکہ گناہ نہ ہو۔
سوال ۳۳۰: نماز عید کے بارے میں کیا حکم ہے؟
جواب :میری رائے میں نماز عید فرض عین ہے، لہٰذا مردوں کو نماز عید قطعاً نہیں چھوڑنی چاہیے بلکہ ضرور ادا کرنی چاہیے کیونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا حکم دیا ہے یہی نہیں بلکہ آپ نے پردہ نشین عورتوں کو بھی نماز عید کے لیے باہر نکلنے کا حکم دیا ہے مزید برآں آپ نے حائضہ عورتوں کو بھی (عید کی دعا میں شرکت کے لیے) نکلنے کا حکم مرحمت فرمایا ہے، البتہ وہ عید گاہ سے الگ تھلک رہیں گی۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ نماز عید کی بہت زیادہ تاکید ہے۔ میں نے جو یہ کہا ہے کہ نماز عید فرض عین ہے تو یہی قول راجح ہے اور اسی کو شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے اختیار فرمایا ہے۔ لیکن یہ نماز جمعہ کی طرح ہے، جب فوت ہو جائے، تو اس کی قضا ادا نہیں کی جائے گی کیونکہ اس کی وجوب قضا کی کوئی دلیل نہیں ہے۔ اوراس کے بدلے کوئی نماز نہ پڑھی جائے، البتہ نماز جمعہ جب فوت ہو جائے تو اس کے بدلے نماز ظہر ادا کرنا واجب ہے کیونکہ وہ نماز ظہر کا وقت ہوتا ہے لیکن نماز عید کے فوت ہو جانے کی صورت میں اس کی قضا نہیں ہے۔
میری مسلمان بھائیوں کو نصیحت یہ ہے کہ وہ اللہ عزوجل سے ڈریں اور اس نماز کو قائم کریں جو خیر اور دعا پر مشتمل ہواکرتی ہے اور اس نماز کے موقع پر لوگوں سے ملنے اور ان سے الفت ومحبت کے ساتھ پیش آنے کا موقع بھی ملتا ہے۔ اگر لوگوں کو لہو ولعب پر مبنی کسی اجتماع کی طرف دعوت دی جائے، تو وہ اس میں بڑے ذوق وشوق کے ساتھ شرکت کے لئے نکل پڑتے ہیں، جب کہ اس نماز میں شرکت کی دعوت تو خود رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دی ہے اور اس سے انہیں اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی طرف سے وہ اجر و ثواب بھی ملتا ہے جس کا اس نے وعدہ فرمایا ہے۔ عورتوں کے لیے واجب ہے کہ وہ جب اس نماز کے لیے آئیں، تو مردوں کی جگہ سے دور رہیں، مردوں سے دور مسجد کے کسی کنارے میں چلی جائیں اور زیب و زینت خوشبو وغیرہ کا استعمال نہ کریں اور اظہار حسن وجمال بھی نہ کریں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جب عورتوں کو عید کے لیے نکلنے کا حکم دیا تو انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ! جب ہم میں سے کسی کے پاس اوڑھنی نہ ہو تو وہ کیا کرے! آپ نے فرمایا:
((لِتُلْبِسْہَا اُخْتُہَا مِنْ جِلْبَابِہَا)) (صحیح البخاری، الحیض، باب شہود الحائض العیدین ودعوۃ المسلمین… ح: ۳۲۴ وصحیح مسلم، صلاۃ المعیدین، باب ذکر اباحۃ خروج النساء فی العیدین، ح: ۸۹۰ (۱۲) واللفظ لہ۔)
’’اس کی بہن اسے اپنی اوڑھنی پہنا دے۔‘‘
یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ عورت کو پردے کے اہتمام کے ساتھ عیدگاہ جانا چاہیے کیونکہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ پوچھا گیا کہ اگر کسی عورت کے پاس جلباب نہ ہو تو آپؐ نے جواب میں یہ نہیں فرمایا کہ وہ مقدور بھر پردے کے ساتھ نکلے بلکہ آپؐ نے یہ فرمایا: ’’اس کی بہن اسے اپنا جلباب پہنا دے۔‘‘
نماز عید پڑھانے والے امام کو چاہیے کہ مردوں کو خطبہ دینے کے بعد عورتوں کو بھی بطور خاص خطبہ دے، بشرطیکہ انہوں نے