کتاب: فتاوی ارکان اسلام - صفحہ 324
الصلاۃ، ح: ۶۰۷۔)
’’جس نے نماز کی ایک رکعت پا لی، اس نے نماز کو پا لیا۔‘‘
اس کا مفہوم یہ ہے کہ جس نے ایک رکعت سے کم پایا تو اس نے نماز کو نہیں پایا۔ اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ بھی منقول ہے:
((مَنْ اَدْرَک رکعۃَ مِنَِ الْجُمُعَۃًِ فَقَدْ اَدْرَکَ)) (سنن النسائی، الجمعۃ، باب من ادرک رکعۃ من صلاۃ الجمعۃ، ح:۱۴۲۶۔)
’’جس نے نماز جمعہ کی ایک رکعت پا لی، گو یا کہ اس نے جمعہ پا لیا۔‘‘
یعنی جب وہ کھڑا ہو کر دوسری رکعت بھی پڑھ لے، تو اس نے نماز جمعہ کو پا لیا۔
دوران خطبہ میں امام کی دعا پر آمین کہنے کاحکم
سوال ۳۲۲: نماز جمعہ کے خطبہ کے بعد امام جب دعا کرے تو کیا آمین کہنا بدعت ہے؟
جواب :یہ بدعت نہیں ہے۔ خطیب جب مسلمانوں کے لیے خطبہ میں دعا کرے تو اس کی دعا پر آمین کہنا مستحب ہے لیکن آمین اجتماعی اور بلند آواز کے ساتھ نہیں ہونی چاہیے بلکہ ہر ایک اپنے طور پر آہستہ سے آمین کہے تاکہ بلند آوازوں کی وجہ سے تشویش پیدا نہ ہو، اس لئے ہر شخص کو اپنے طور پر آہستہ سے آمین کہنی چاہیے۔
غیر عربی زبان میں خطبہ اورخطیب کاخطبہ جمعہ دیتےہوئے دونوں ہاتھ بلند کرنا
سوال ۳۲۳: جمعہ کے دن خطبہ دیتے وقت امام کے دونوں ہاتھوں کے اٹھانے کے بارے میں کیا حکم ہے؟
جواب :جمعہ کے دن خطبہ دیتے وقت امام کے لیے دونوں ہاتھوں کو اٹھانا مشروع نہیں ہے۔ بشر بن مروان نے خطبۂ جمعہ میں جب دونوں ہاتھوں کو اٹھایا، تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے اس کی مخالفت کی تھی۔ البتہ استسقاء اس سے مستثنیٰ ہے کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ ثابت ہے کہ آپ نے خطبہ جمعہ میں بارش کے لیے دونوں ہاتھ اٹھا کر دعا فرمائی تھی اور آپ کے ساتھ لوگوں نے بھی ہاتھ اٹھا لیے تھے۔ اس کے علاوہ خطبہ جمعہ میں کسی اور دعا کے لیے دونوں ہاتھ نہیں اٹھانے چاہئیں۔
سوال ۳۲۴: عربی کے علاوہ کسی دوسری زبان میں خطبہ دینے کے بارے میں کیا حکم ہے؟
جواب :اس مسئلہ میں صحیح بات یہ ہے کہ خطیب کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ خطبہ کسی ایسی زبان میں دے جسے اس کے سوا دیگر حاضرین سمجھتے ہی نہ ہوں، مثلاً: اگر حاضرین عرب نہیں ہیں اور وہ عربی زبان نہیں سمجھتے تو وہ ان کی زبان میں خطبہ دے کیونکہ زبان ان کے لیے وسیلہ بیان ہے اور خطبہ سے مقصود یہ ہے کہ بندگان الٰہی کے سامنے اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی حدود کو بیان کیا جائے اور انہیں وعظ و نصیحت کی جائے، البتہ واجب ہے کہ آیات قرآنی کو عربی زبان ہی میں پڑھا جائے اور پھر ان لوگوں کی زبان میں ان کی تفسیر بیان کی جائے، اس بات کی دلیل کہ قوم کی زبان اور لغت کے مطابق خطبہ دیا جائے، یہ آیت کریمہ ہے:
﴿وَ مَآ اَرْسَلْنَا مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا بِلِسَانِ قَوْمِہٖ لِیُبَیِّنَ لَہُمْ﴾ (ابراہیم: ۴)