کتاب: فتاوی ارکان اسلام - صفحہ 322
جائے، تو اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ لوگ جمعہ وجماعت کو ترک کر نے لگیں گے۔
عورت جمعہ کی کتنی رکعتیں ادا کرے ؟
سوال ۳۱۸: عورت نماز جمعہ کی کتنی رکعات پڑھے گی؟
جواب :عورت اگر نماز جمعہ مسجد میں امام کے ساتھ ادا کرے، تو وہ بھی اتنی ہی رکعات پڑھے گی، جتنی امام پڑھتا ہے اور اگر وہ گھر میں نماز پڑھے، تو پھر ظہر کی چار رکعات ادا کرے گی۔
جمعہ پڑھ لیں تو پھر فرض نمازپڑھنے کی ضرورت نہیں
سوال ۳۱۹: جس نے جمعہ پڑھا ہو، کیا وہ نماز ظہر بھی پڑھے گا؟
جواب :جب انسان جمعہ پڑھ لے تو اس وقت اس پر جمعہ ہی فرض ہے، لہٰذا وہ ظہر نہ پڑھے۔ نماز جمعہ کے بعد ظہر کی نماز پڑھنا بدعت ہے کیونکہ ایسا کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں ہے، لہٰذا اس سے منع کرنا واجب ہے حتیٰ کہ اگر کئی جمعے ہونے لگیں، تو پھر بھی نماز جمعہ کے بعد نماز ظہر پڑھنا مشروع نہیں ہے بلکہ یہ بدعت اور ایک منکر کام ہے کیونکہ ایک وقت میں اللہ تعالیٰ نے انسان پر ایک ہی نماز کوواجب قرار دیا ہے اور وہ نمازجمعہ ہے اب جب جمعہ اس نے ادا کر لیا تواس کے ذمہ سے نماز ظہر کی ادائیگی ساقط ہوگئی۔ اور جس نے اس کا سبب یہ قرار دیا ہے کہ ایک شہر یا بستی میں کئی جمعے جائز نہیں ہیں اور جب کئی جمعے ہوں تو جمعہ اس مسجد میں ادا کیا جائے جو سب سے پہلی مسجد ہو اور اگر یہ معلوم نہیں کہ سب سے پہلی مسجد کون سی ہے، لہٰذا سارے جمعے باطل ہوں گے اور ان کے بعد نماز ظہر کو پڑھنا ضروری ہوگا۔ ہم ان لوگوں سے پوچھتے ہیں کہ یہ دلیل یا یہ تعلیل تم نے کہاں سے اخذ کی ہے۔ کیا اس کی بنیاد سنت پر ہے یا کسی صحیح عقلی دلیل پر؟ اس کا جواب یقینا نفی میں ہوگا، اس بنیادپرہم یہ کہیں گے کہ اگر جمعے حاجت وضرورت کی وجہ سے متعدد ہیں تو سارے صحیح ہیں کیونکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿فَاتَّقُوا اللّٰہَ مَا اسْتَطَعْتُمْ﴾ (التغابن: ۱۶)
’’سو جہاں تک ہو سکے اللہ سے ڈرو۔‘‘
جب کوئی شہر بہت دور دور تک پھیل گیا ہو یا مسجدیں تنگ ہوں اور ضرورت کی وجہ سے مختلف جمعے ہوں تو اس مطلب یہ ہے کہ اس شہر کے لوگ اللہ سے مقدور بھر ڈر گئے اور جو شخص اللہ تعالیٰ سے مقدور بھر ڈر جائے تو اس نے اپنے واجب کو ادا کر دیا، لہٰذا یہ کیسے کہا جا سکتا ہے کہ اس کا عمل فاسد ہے اور اسے نماز جمعہ کے بجائے ظہر کی نماز بھی ادا کرنی چاہیے۔ اگر کسی حاجت وضرورت کے بغیر متعدد مقامات پر جمعے ادا کیے جائیں تو بلا شبہ یہ خلاف سنت ہے،ان کا یہ تعامل نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفائے راشدینe کے عمل کے خلاف ہے، اکثر اہل علم کے نزدیک اس کی ممانعت ورادہوئی ہے لیکن اس کے باوجود ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ جمعہ کی صورت میں ادا کی گئی عبادت صحیح نہیں ہے کیونکہ یہاں ذمہ داری عوام کی نہیں بلکہ ان حکمرانوں کی ہے جنہوں نے حاجت و ضرورت کے بغیر متعدد جمعوں کی اجازت دے رکھی ہے، لہٰذا ہم کہتے ہیں کہ مساجد کے انتظام وانصرام سے متعلق حکمرانوں کا فرض ہے کہ وہ ضرورت و حاجت کے بغیر متعدد جمعوں کی اجازت نہ دیں کیونکہ شارع کی نظر میں اس بات کی بے حد اہمیت ہے کہ لوگ تمام عبادات کو اجتماعی طور پر ادا کریں تاکہ آپس میں الفت ومحبت پیدا