کتاب: فتاوی ارکان اسلام - صفحہ 319
دو نمازوں کو جمع کرنے کی کہاں تک رخصت ہے؟ سوال ۳۱۴: ہم نے گزشتہ دنوں دیکھا کہ نمازیں بہت کثرت سے جمع کر کے ادا کی جارہی تھیں اور اس مسئلہ میں لوگوں نے بہت تساہل سے کام لیا ہے، آپ کی رائے میں کیا اس طرح کی سردی نمازوں کے جمع کرنے کا جواز بن سکتی ہے؟ اللہ تعالیٰ آپ کو اجر و ثواب سے نوازے۔ جواب: لوگوں کے لیے یہ حلال نہیں کہ وہ تساہل سے کام لے کر نمازیں جمع کر کے ادا کریں کیونکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿اِنَّ الصَّلٰوۃَ کَانَتْ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ کِتٰبًا مَّوْقُوْتًا﴾ (النساء: ۱۰۳) ’’بے شک نماز کا مومنوں پر اوقات (مقررہ) میں ادا کرنا فرض ہے۔‘‘ اور فرمایا: ﴿اَقِمِ الصَّلٰوۃَ لِدُلُوْکِ الشَّمْسِ اِلٰی غَسَقِ الَّیْلِ وَقُرْاٰنَ الْفَجْرِ اِنَّ قُرْاٰنَ الْفَجْرِ کَانَ مَشْہُوْدًا، ﴾ (الاسراء: ۷۸) ’’(اے نبی!) سورج کے ڈھلنے سے رات کے اندھیرے تک (ظہر، عصر، مغرب اور عشاء کی) نمازیں قائم کرو اور صبح کو قرآن پڑھا کرو کیونکہ صبح کے وقت قرآن کا پڑھنا موجب حضوری (ملائکہ) ہے۔‘‘ جب فرض نماز کا وقت مقرر ہے تو اسے اس کے مقرر وقت میں ادا کرنا واجب ہے، جیسے کہ آیت کریمہ: ﴿اَقِمِ الصَّلٰوۃَ لِدُلُوْکِ الشَّمْسِ﴾ میں اجمال کے ساتھ بیان کیا گیا ہے اور جس کی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے تفصیل اس طرح بیان فرمائی ہے: ((وَقْتُ الظُّہْرِ إِذَا زَالَتِ الشَّمْسُ وَکَانَ ظِلُّ الرَّجُلِ کَطُولِہٖ مَا لَمْ یَحْضُرِ الْعَصْرُ وَوَقْتُ الْعَصْرِ مَا لَمْ تَصْفَرَّ الشَّمْسُ وَوَقْتُ صَلٰوۃِ الْمَغْرِبِ مَا لَمْ یَغِبْ الشَّفَقُ وَوَقْتُ صَلٰوۃِ الْعِشَآئِ اِلٰی نِصْفِ اللَّیْلِ الْأَوْسَطِ وَوَقْتُ صَلَاۃِ الصُّبْحِ مِنْ طُلُوعِ الْفَجْرِ مَا لَمْ تَطْلُعْ الشَّمْسُ)) (صحیح مسلم، المساجد، اوقات الصلوات الخمس، ح:۶۱۲ (۱۷۳)۔) ’’ظہر کا وقت ہے جب سورج کا زوال ہو جائے اور آدمی کا سایہ اس کے اپنے طول کے برابر ہو جائے اور یہ عصر کے وقت تک ہے اور عصر کا وقت، وہ ہے جب تک سورج زرد نہ ہو، اور نماز مغرب کا وقت وہ ہے جب تک شفق غائب نہ ہو، اور نماز عشاء کا وقت آدھی رات تک ہے اور صبح کی نماز کا وقت طلوع فجر سے لے کر طلوع شمس تک ہے۔‘‘ ﴿وَ مَنْ یَّتَعَدَّ حُدُوْدَ اللّٰہِ فَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الظّٰلِمُوْنَ، ﴾ (البقرۃ: ۲۲۹) ’’اور جو لوگ اللہ کی حدوں سے باہر نکل جائیں، تووہی ظالم ہیں۔‘‘ جو شخص جانتے بوجھتے ہوئے قصد وارادے کے ساتھ قبل از وقت نماز پڑھ لے، وہ گناہ گار ہے، اسے نماز دوبارہ پڑھنا ہوگی اور اگر کسی نے جان بوجھ کر قصد وارادے سے قبل از وقت نماز نہیں پڑھی بلکہ غلطی کی وجہ سے پڑھی ہے، تو وہ گناہ گار تو نہیں ہوگا، البتہ