کتاب: فتاوی ارکان اسلام - صفحہ 28
اہل قبلہ اور اسلام کی طرف اپنی نسبت کرنے والوں میں سے بھی بہت سے گروہ گمراہ ہوگئے ہیں اور یہ گمراہ فرقے مختلف قسم کے ہیں۔ ان میں سے بعض نے نفی و تنزیہ کے بارے میں اس قدر غلو سے کام لیا کہ وہ دائرۂ اسلام سے خارج ہوگئے، بعض متوسط تھے اور ان میں سے بعض وہ تھے جو اہل سنت کے قریب رہے۔ توحید کی اس قسم کے بارے میں سلف کا طریقہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کو علیٰ وجہ الحقیقت، تحریف، تعطیل، تکییف اور تمثیل کے بغیر ان اسماء و صفات کے ساتھ موسوم وموصوف قرار دیا جائے جو اس نے خود اپنی ذات کو موصوف کیا ہے ، مثلاً: اللہ تعالیٰ نے اپنے آپ کو ’’حی‘‘ اور ’’قیوم‘‘ کے اسماء کے ساتھ موسوم کیا ہے تو جس طرح ہم پر واجب ہے کہ ہمارا یہ ایمان ہو کہ ’’حی‘‘ اللہ تعالیٰ کے اسماء میں سے ایک اسم ہے، اس طرح یہ بھی واجب ہے کہ جس صفت پر یہ اسم پاک مشتمل ہے، ہم اس پر بھی ایمان لائیں اور وہ صفت ہے حیات کاملہ کی مراد یہ ہے کہ جس سے پہلے عدم تھا نہ اس کے بعد فنا ہوگا، اسی طرح اللہ تعالیٰ نے اپنا نام ’’سمیع‘‘ بیان فرمایا ہے، لہٰذا ہم پر واجب ہے کہ ہم اس بات پر ایمان رکھیں کہ ’’سمیع‘‘ اللہ تعالیٰ کے اسمائے حسنیٰ میں سے اسم پاک ہے اور سمع اس کی صفات میں سے ایک صفت ہے اور وہ سنتا ہے۔ یہی وہ حکم ہے جو اسم و صفت کا تقاضا ہے، سمع کے بغیر ’’سمیع‘‘ ہونا یا مسموع کے ادراک کے بغیر سننا محال ہے، اسی طرح دیگر اسماء و صفات کو قیاس کریں۔ ایک اور مثال: ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿وَ قَالَتِ الْیَہُوْدُ یَدُ اللّٰہِ مَغْلُوْلَۃٌ غُلَّتْ اَیْدِیْہِمْ وَ لُعِنُوْا بِمَا قَالُوْا بَلْ یَدٰہُ مَبْسُوْطَتٰنِ یُنْفِقُ کَیْفَ یَشَآئُ﴾ (المائدۃ: ۶۳) ’’اور یہود کہتے ہیں کہ اللہ کا ہاتھ (گردن سے) بندھا ہوا ہے (یعنی اللہ بخیل ہے) انہیں(یہویوں) کے ہاتھ باندھے جائیں اور ایساکہنے کے سبب ان پر لعنت ہو بلکہ اس کے دونوں ہاتھ کھلے ہیں۔ وہ جس طرح (اور جتنا) چاہتا ہے خرچ کرتا ہے۔‘‘ اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: ﴿بَلْ یَدَاہُ مَبْسُوْطَتَانِ﴾ ’’بلکہ اس کے دونوں ہاتھ کھلے ہیں۔‘‘ بلاشبہ اس جملہ میں اس نے اپنی ذات پاک کے لیے دو ہاتھوں کا اثبات فرمایا ہے اور ان دونوں ہاتھوں کو صفت ’’بسط‘‘ کے ساتھ موصوف قرار دیا ہے، جس کے معنی بہت زیادہ عطا کرنے کے ہیں، لہٰذا ہم پر واجب ہے کہ ہم اس بات پر ایمان رکھیں کہ اللہ تعالیٰ کے دو ہاتھ ہیں جو عطا فرمانے اور نعمتوں کے ساتھ نوازنے میں بہت کھلے ہیں۔ اسی طرح ہم پر یہ بھی واجب ہے کہ ہم اپنے دلوں میں اللہ تعالیٰ کا تصور لائیں نہ زبان سے بول کر ان پاک ہاتھوں کی کیفیت کو بیان کریں اور نہ انہیں مخلوق کے ہاتھوں کے مماثل قرار دیں، کیونکہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا ہے: ﴿لَیْسَ کَمِثْلِہٖ شَیْئٌ وَہُوَ السَّمِیْعُ الْبَصِیْرُ﴾ (الشوری: ۱۱) ’’اس جیسی کوئی چیز نہیں اور وہ سنتا، دیکھتا ہے۔‘‘ اور فرمایا: ﴿قُلْ اِنَّمَا حَرَّمَ رَبِّیَ الْفَوَاحِشَ مَا ظَہَرَ مِنْہَا وَ مَا بَطَنَ وَ الْاِثْمَ وَ الْبَغْیَ بَغَیْرِ الْحَقِّ وَ اَنْ تُشْرِکُوْا بِاللّٰہِ مَا لَمْ یُنَزِّلْ بِہٖ سُلْطٰنًا وَّ اَنْ تَقُوْلُوْا عَلَی اللّٰہِ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ، ﴾ (الاعراف: ۳۳) ’’کہہ دو میرے پروردگار نے تو بے حیائی کی باتوں کو خواہ وہ ظاہر ہوں یا پوشیدہ اور گناہ کو اور ناحق زیادتی کرنے کو حرام کیا