کتاب: فتاوی ارکان اسلام - صفحہ 275
’’شاید تم اپنے امام کے پیچھے پڑھتے ہو۔‘‘ ہم نے عرض کیا: ہاں یا رسول اللہ! جلدی جلدی پڑھتے ہیں، تو آپ نے فرمایا: ’’تم فاتحۃ الکتاب کے سوا اور کچھ نہ پڑھو کیونکہ جو اسے نہیں پڑھتا اس کی کوئی نماز نہیں۔‘‘ مسبوق سے اس کے ساقط ہونے کی دلیل حدیث ابی بکرہ رضی اللہ عنہ ہے کہ انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو حالت رکوع میں پایا تو صف میں داخل ہونے سے پہلے ہی جلدی سے رکوع میں چلے گئے اور حالت رکوع ہی میں صف میں داخل ہوئے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز سے فارغ ہوئے تو آپؐ نے فرمایا: یہ کس نے کیا ہے۔ حضرت ابوبکرہ رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: میں نے یا رسول اللہ! تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((زَادَکَ اللّٰہُ حِرْصًا وَلاَ تَعُدْ)) (صحیح البخاری، الاذان، باب: اذا رکع دون الصف، ح:۷۸۳۔) ’’اللہ تعالیٰ تمہارے شوق میں اضافہ فرمائے، دوبارہ ایسا نہ کرنا۔‘‘ ’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اس رکعت کے دوبارہ پڑھنے کا حکم نہیں دیا، جس میں وہ جلدی سے شامل ہوگئے تھے تاکہ وہ فوت نہ ہو، اگر اس حالت میں ان کے لیے سورۂ فاتحہ پڑھنا واجب ہوتا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم اسے اس کا حکم دیتے جس طرح کہ آپ نے اس شخص کو دوبارہ نماز پڑھنے کا حکم دیا تھا جس نے سکون واطمینان کے بغیر نماز پڑھ لی تھی۔[1] یہ تو ہے مسئلے کا پہلو نقلی اعتبار سے اور جہاں تک اس کا عقلی اعتبار سے تعلق ہے تو اس کی تفصیل حسب ذیل ہے: مسبوق نے جب قیام کو نہ پایا، جو سورۂ فاتحہ پڑھنے کا مقام ہے تو اس سے سورۂ فاتحہ کا پڑھنا ساقط ہوگیا جیسا کہ وہ شخص جس کا ہاتھ کٹا ہوا ہو تو اس کے لیے ہاتھ کے بجائے بازو دھونا واجب نہیں ہے کیونکہ مقام کے فوت ہو جانے کے بعد اس سے فرض ساقط ہو جائے گا، اسی طرح جو شخص امام کو حالت رکوع میں پائے اس سے بھی فاتحہ پڑھنا ساقط ہو جائے گا کیونکہ اس نے قیام کو نہیں پایا جو فاتحہ پڑھنے کا مقام ہے اور اس سے یہاں قیام امام کی متابعت کی وجہ سے ساقط ہوا ہے۔
[1] فاضل مفتی رحمہ اللہ کی یہ بات تو صحیح ہے کہ سورۂ فاتحہ کا پڑھنا امام، مقتدی اور منفرد کے حق میں سری و جہری نماز میں رکن ہے۔ لیکن پھر امام کو حالت رکوع میں پانے والے شخص سے اس کی رکنیت کو ساقط فرما رہے ہیں۔ حالانکہ جن احادیث کے عموم سے وہ سب کے لیے سورۂ فاتحہ کے رکن ہونے کا اثبات فرما رہے ہیں، اس کے عموم میں تو مدرک رکوع بھی شامل ہے، اس اعتبار سے اس کی یہ رکعت شمار نہیں ہونی چاہیے۔ رہی حضرت ابوبکرہ رضی اللہ عنہ والی حدیث، جس سے موصوف رحمہ اللہ نے مدرک رکوع سے سورۂ فاتحہ کی رکنیت ساقط ہونے پر استدلال کیا ہے، وہ کوئی مضبوط دلیل نہیں ہے۔ اس لیے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جو الفاظ ارشاد فرمائے تھے۔ وہ تھے: (لَا تَعُدْ) ’’دوڑ کر نہ آنا‘‘ اور تیسرا احتمال یہ ہے کہ (لَا تَعُدَّ) ہو، یعنی ’’اس رکعت کو شمار نہ کرنا‘‘ اور چوتھا احتمال یہ ہے کہ (لَا تُعِدْ) یعنی تو نماز نہ دہرا تیری نماز درست ہے۔ اور یہ اصول ہے کہ (اذَا جَائَ الْاِحْتِمَالُ بَطَلَ الْاِسْتِدْلَالُ) ’’جب ایک سے زیادہ احتمال ہوں، تو اس سے استدلال جائز نہیں رہتا۔‘‘ اس لیے مذکورہ الفاظ سے کسی ایک مفہوم پر استدلال کرنا صحیح نہیں۔ بنا بریں مدرک رکوع کی رکعت کے صحیح ہونے کا فتویٰ دینا بھی غیر صحیح ہے۔ کیونکہ مدرک رکوع کے دو رکن فوت ہوگئے۔ ایک قیام اور دوسرا قراء ت فاتحہ اور نماز کا ایک رکن بھی فوت ہو جائے، تو وہ رکعت نہیں ہوتی۔ تو پھر دو رکن فوت ہو جانے کے باوجود اس رکعت کا شمار کرنا کیونکر صحیح ہوگا۔ (ص ، ی)