کتاب: فتاوی ارکان اسلام - صفحہ 259
((مَا أَسْفَلَ مِنَ الْکَعْبَیْنِ مِنَ الْإِزَارِ فَفِی النَّارِ )) (صحیح البخاری ، اللباس، باب ما اسفل من الکعبین فہو فی النار، ح: ۵۷۸۷۔)
’’تہبند کا جو حصہ ٹخنوں سے نیچے ہو، وہ جہنم میں ہوگا۔‘‘
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے تکبر کے ساتھ مقید نہیں فرمایا اور نہ مذکورہ بالا حدیث کے پیش نظر اسے مقید کرنا صحیح ہے کیونکہ حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
((اِزَارَۃُ الْمُؤمنِ إِلَی نِصْفِ السَّاقِ وَلَا حَرَجَ أَوقال:ْ لَا جُنَاح علیہَ فِیمَا بَیْنَہُ وَبَیْنَ الْکَعْبَیْن وِ مَا کَانَ أَسْفَلَ مِنْ ذلکِ فَہُوَ فِی النَّاروِ مَنْ جَرَّ إِزَارَہُ بَطَرًا لَمْ یَنْظُرِ اللّٰہُ إِلَیْہ یوم القیامہِ)) (سنن ابی داود، اللباس، باب فی قدر موضع الازار ح: ۴۰۹۳ وسنن ابن ماجہ، اللباس، باب موضع الازار این ہو، ح: ۳۵۷۳ ومسند احمد: ۳/ ۵۔)
’’مسلمان کا تہبند نصف پنڈلی تک ہے، نصف پنڈلی اور ٹخنوں کے درمیان جو ہو اس میں کوئی حرج یا گناہ نہیں اور جو ٹخنوں سے نیچے ہو، وہ آگ میں ہوگا ( مرادجہنم کا ایندھن بنے گا)اور جس نے تکبر کے ساتھ اپنے تہبند کو گھسیٹا تو قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اس کی طرف نظر اٹھاکر دیکھے گا بھی نہیں۔‘‘
دونوں عمل مختلف ہیں، اس لیے ان کی سزائیں بھی مختلف ہیں اور جب حکم اور سبب مختلف ہوں تو مطلق کو مقید پر محمول کرنا ممنوع ہوتا ہے کیونکہ اس سے تناقض لازم آتا ہے۔ جو شخص حدیث حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو ہمارے خلاف بطور دلیل پیش کرے تو ہم کہیں گے کہ یہ حدیث تمہارے لیے دلیل نہیں بن سکتی اور اس کے درج ذیل وجوہ ہیں: (۱)حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے کہا تھا:
((اِنَّ أَحَدَ شِقَّیْ ثَوْبِی یَسْتَرْخِی إِلَّا أَنْ أَتَعَاہَدَ ذَلِکَ مِنْہُ)) (صحیح البخاری، اللباس، باب من جر ازارہ من غیر خیلاء، ح:۵۷۸۴۔)
’’میرے تہبند کی ایک جانب ڈھیلی ہو جاتی ہے لیکن میں اس کا خیال رکھتا ہوں۔‘‘
اس سے معلوم ہوا کہ حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ اپنے اختیار سے کپڑے کو نیچے نہیں لٹکاتے تھے بلکہ وہ
خود بخود ڈھیلا ہو جاتا تھا اور آپ اسے اوپر اٹھانے کی کوشش کرتے رہتے تھے لیکن جو لوگ کپڑوں کو خود قصد وارادے سے لٹکاتے اور یہ خیال کرتے ہیں کہ وہ تکبر سے ایسا نہیں کرتے تو ہم ان سے کہیں گے کہ اگر تم اپنے کپڑوں کو خود ٹخنوں سے نیچے لٹکاؤ اور تمہارا مقصد فخر وغرور نہ ہو تو ٹخنے سے نیچے لٹکائے جانے والے کپڑے کی وجہ سے تمہیں آگ کا عذاب ہوگا اور اگر تم فخر و غرور کے ساتھ لٹکاؤ تو تمہیں اس سے زیادہ بڑا عذاب ہوگا اور وہ یہ کہ روز قیامت اللہ تعالیٰ تم سے کلام نہیں فرمائے گا، تمہاری طرف دیکھے گا بھی نہیں، تمہیں پاک نہیں کرے گا اور تمہارے لیے دردناک عذاب ہوگا۔
(۲) نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا تزکیہ فرما دیا تھا بایں طور بذات خود آپ نے گواہی دی کہ وہ تکبر کی وجہ سے ایسا نہیں کرتے تو کیا ان میں سے کسی نے بھی اس طرح کا تزکیہ اور شہادت حاصل کر رکھی ہے۔ بات یہ ہے کہ شیطان بعض لوگوں کے لیے کتاب وسنت کے متشابہ نصوص کی اتباع کا دروازہ کھول دیتا ہے تاکہ ان کے لیے ان کے عمل کا جواز فراہم کر سکے لیکن اللہ تعالیٰ جسے چاہے صراط مستقیم کی ہدایت عطا فرما دیتا ہے۔ ہم اپنے لیے اور ان کے لیے بھی اللہ تعالیٰ سے ہدایت و عافیت کی دعا کرتے ہیں۔ یہ