کتاب: فتاوی ارکان اسلام - صفحہ 257
ہو، جہاں غیر محرم مرد ہوں تو پھر چہرے کو ڈھانکنا ضروری ہے کیونکہ غیر محرم مردوں سے چہرے کو چھپانا واجب ہے اور ان کے سامنے اسے کھلا رکھنا حلال نہیں ہے۔ جیسا کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی کتاب، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت اور قیاس صحیح سے ثابت ہے جس سے مومن تو کجا کوئی عقل مند انسان بھی صرف نظر نہیں کر سکتا۔ ہاتھوں میں دستانوں کو پہننا شرعاً جائز ہے اور بظاہر یوں معلوم ہوتا ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی عورتیں دستانوں کو پہنا کرتی تھیں اور اس کی دلیل یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
((لَا تَنْتَقِبِ الْمُحْرِمَۃُ وَلَا تَلْبَسِ الْقُفَّازَیْنِ)) (صحیح البخاری، جزاء الصید، باب ما ینہی من الطیب للمحرم والمحرمۃ، ح: ۱۸۳۸۔)
’’محرم عورت نہ نقاب اوڑھے اور نہ دستانے پہنے۔‘‘
یہ اس بات کی دلیل ہے کہ صحابیات کی عادت دستانے پہننے کی تھی، لہٰذا اس میں کوئی حرج نہیں کہ عورت نے نماز پڑھتے ہوئے دستانے پہن رکھے ہوں جب اس حال میں اہ نمازاداکررہی ہو کہ وہاں اجنبی مرد موجود ہوں۔ جہاں تک چہرے کو ڈھانکنے کا تعلق ہے تو جب وہ کھڑی یا بیٹھی ہوگی تو چہرے کو ڈھانکے گی اور جب سجدہ کرنے لگے گی تو چہرے کو ننگا کر لے گی تاکہ پیشانی سجدہ کی جگہ پر لگ جائے۔
لاعلمی کی وجہ سےناپاک کپڑوں میں نماز پڑھ لی جائے؟
سوال ۲۱۱: اگر کوئی شخص لا علمی کی وجہ سے ناپاک کپڑوں میں نماز پڑھ لے تو اس کے بارے میں کیا حکم ہے؟
جواب :جب انسان ناپاک کپڑوں میں نماز پڑھ لے اور اسے نماز پڑھنے کے بعد معلوم ہوا ہو کہ یہ کپڑے ناپاک تھے یا اسے علم تو تھا مگر نماز پڑھنے کے بعد اسے یاد آیا ہو تو اس کی نماز صحیح ہے، اسے دوبارہ پڑھنے کی ضرورت نہیں کیونکہ اس نے ایک ممنوع کام کا ارتکاب ناواقفیت یا نسیان کی وجہ سے کیا ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿رَبَّنَا لَا تُؤَاخِذْنَآ اِنْ نَّسِیْنَآ اَوْ اَخْطَاْنَا﴾(البقرۃ: ۲۸۶)
’’اے پروردگار! اگر ہم سے بھول چوک ہوگئی ہو تو ہم سے مؤاخذہ نہ کیجئے۔‘‘
اور بندہ جب یہ دعا کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ﴿قَدْ فَعَلْتُ﴾ ’’میں نے ایسا ہی کیا۔‘‘ [1] رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دن اپنے ناپاکی والے جوتوں سمیت نماز پڑھ لی تھی۔ نماز کی ادائیگی کے دوران جبرئیل علیہ السلام نے آکر آپ کو اس کی خبر دی تو آپ نے نماز پڑھتے ہوئے جوتے اتار دیے اور نماز کو دوبارہ از سر نو شروع نہیں فرمایا، لہٰذا یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے جسے نماز کے دوران ناپاکی کا علم ہو جائے تو وہ اسے زائل کر دے، خواہ نماز کے دوران ہی اسے ایسا کرنا پڑے اور نماز کو جاری رکھے بشرطیکہ اس کے ازالہ کے بعد اس کی برہنگی کو چھپائے رکھنا ممکن ہو۔ اسی طرح جو شخص بھول جائے اور اسے دوران نماز یاد آئے تو وہ اس ناپاک کپڑے کو اتار دے بشرطیکہ اس صورت میں شرم وحیا کے مقام مستور ہوں(ستر عورت کا خیال رہے) اور اگر وہ نماز سے فارغ ہو جائے اور فراغت کے بعد اسے یاد آئے یا فراغت کے بعد اسے اس بات کا علم ہو تو نماز کے اعادہ کی ضرورت نہیں ہے، اس کی نماز صحیح ہوگی۔
[1] صحیح مسلم، الایمان، باب بیان انہ سبحانہ لم یکلف الا ما یطاق، حدیث: ۱۲۶۔