کتاب: فتاوی ارکان اسلام - صفحہ 252
ح: ۶۳۸ (۲۱۹)۔) ’’اگر مجھے امت کے مشقت میں پڑ جانے کا اندیشہ نہ ہوتا تو نماز عشاء کا یہی وقت ہے۔‘‘ لہٰذا عورت کے لیے افضل یہی ہے کہ اگر وہ اپنے گھر میں نماز پڑھے تو اسے مؤخر کر کے پڑھے۔ اسی طرح بالفرض اگر کچھ لوگ سفر میں ہوں اور وہ یہ پوچھیں کہ ہم نماز کو جلد پڑھیں یا دیر سے؟ تو ہم عرض کریں گے کہ افضل یہی ہے کہ تم تاخیر سے نماز ادا کرو۔ اسی طرح اگر کچھ لوگ سیر وسیاحت کے لیے نکلے ہوں اور عشاء کا وقت ہو جائے تو کیا ان کے لیے نماز عشا ء کو جلد پڑھنا افضل ہے یا تاخیر سے پڑھنا؟ تو ہم عرض کریں گے کہ اگر مشقت نہ ہو تو ان کے لیے نماز کو تاخیر کے ساتھ پڑھنا افضل ہے؟ باقی نمازوں میں افضل یہ ہے کہ انہیں جلدی پڑھا جائے الا یہ کہ تاخیر کا کوئی سبب ہو، فجر، ظہر، عصر اور مغرب کی نمازوں کو جلد ادا کیا جائے گا الایہ کہ تاخیر کا کوئی سبب ہو۔ تاخیراسباب میں سے یہ بھی ہے کہ اگر گرمی شدید ہو تو نماز ظہر کو وقت کے ٹھنڈا ہونے تک مؤخر کیا جا سکتا ہے، یعنی اسے نماز عصر کے قریب تک ٹھنڈا کیا جا سکتا ہے کیونکہ نماز عصر کے قریب وقت ٹھنڈا ہوتا ہے۔[1] لہٰذا گرمی سخت ہو تو افضل یہ ہے کہ اسے وقت ٹھنڈا ہونے پر ادا کیا جائے کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: ((اِذَا اشْتَدَّ الْحَرُّ فَاَبْرِدُوا بِالصَّلَاۃِ فَاِنَّ شِدَّۃَ الْحَرِّ مِنْ فَیْحِ جَہَنَّمَ)) (صحیح البخاری، المواقیت، باب الابراد بالظہر فی شدۃ الحر، ح: ۵۳۳ وصحیح مسلم، باب استحباب الابراد بالظہر… ح: ۶۱۵۔) ’’جب گرمی سخت ہو تو نماز کو ٹھنڈا کر کے پڑھو کیونکہ گرمی کی شدت جہنم کی تیزی میں سے ہے۔‘‘ ایک بار نبی صلی اللہ علیہ وسلم سفر میں تھے، حضرت بلال رضی اللہ عنہ اذان کے لیے کھڑے ہوئے تو آپؐ نے فرمایا: (ابْرِدْ) ’’ٹھنڈا کرو‘‘ وہ پھر اذان کے لیے کھڑے ہوئے تو آپ نے فرمایا: (أبْرِدْ) ’’ٹھنڈا کرو۔‘‘ وہ پھر اذان کے لیے کھڑے ہوئے تو آپ نے انہیں اذان دینے کی اجازت عطا فرما ئی۔[2] تاخیر کے اسباب میں سے یہ بھی ہے کہ آخر وقت میں جماعت مل جائے اور اول وقت میں جماعت نہ مل سکتی ہو تو اس صورت میں تاخیر کے ساتھ نماز ادا کرنا افضل ہے، مثلا: ایک شخص جنگل میں ہو، نماز کا وقت ہو جائے اور اسے معلوم ہو کہ شہر پہنچ کر وہ آخری
[1] فاضل مفتی رحمہ اللہ کی اس رائے سے اتفاق نہیں کیا جا سکتا۔ کیونکہ ابراد (ٹھنڈا کرنے) کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ظہر کا سارا وقت نکال دیا جائے، حتیٰ کہ عصر کا وقت بالکل قریب ہو جائے۔ بلکہ اس کا مطلب وقت معتاد سے قدرے مؤخر کرنا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ابراد کی انتہا میں علماء کے درمیان اختلاف ہے، لیکن اس میں یہ شرط ہے کہ انتظار اور تاخیر کی مدت آخر وقت تک نہ پہنچے۔ (فتح الباری، مواقیت الصلاۃ، باب الابراد بالظہر فی السفر، حدیث: ۵۳۹) اور مفتی صاحب کی رائے اس شرط کے خلاف ہے۔ (ص، ی) [2] صحیح البخاری، مواقیت الصلاۃ، باب الابراد بالظہر فی السفر، حدیث: ۵۳۹ صحیح مسلم، المساجد، باب استحباب الابراد بالظہر… حدیث: ۶۱۶۔