کتاب: فتاوی ارکان اسلام - صفحہ 251
اسے صحیح سند کے ساتھ روایت کیا ہے۔[1] کیا اقامت کا جواب دینا اور (اقَامَہَا اللّٰہُ وَاَدَامَہَا) کہنا درست ہے ؟ سوال ۲۰۱: کیا انسان اقامت میں بھی جواب دے؟ جواب :اقامت میں جواب دینے کے بارے میں ایک حدیث ہے، جسے امام ابوداود رحمہ اللہ نے روایت کیا ہے، مگر یہ روایت ضعیف اور ناقابل استدلال ہے، لہٰذا راجح بات یہ ہے کہ اقامت میں جواب نہ دیا جائے۔ سوال ۲۰۲: ہم بعض لوگوں سے سنتے ہیں کہ وہ اقامت کے بعد یہ الفاظ کہتے ہیں: (اقَامَہَا اللّٰہُ وَاَدَامَہَا) تو اس کے بارے میں کیا حکم ہے؟ جواب :اس بارے میں ایک حدیث میں آیا ہے کہ جب مؤذن (قَدْ قَامَتِ الصَّلَاۃُ) کہتا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم یہ فرماتے تھے: ((اَقَامَہَا اللّٰہُ وَاَدَامَہَا))( سنن ابی داود، الصلاۃ، باب ما یقول اذا سمع الاقامۃ، ح: ۵۲۸ والسنن الکبری للبیہقی: ۱/ ۴۱۱ وقال الحافظ فی التلخیص: ۱/ ۲۱۱ ضعیف، وضعفہ الالبانی فی الارواء: ۱/ ۲۵۸۔) ’’اللہ تعالیٰ اسے قائم ودائم رکھے۔‘‘ لیکن یہ حدیث ضعیف اور ناقابل استدلال ہے۔ نماز کا اول وقت کونسا ہے ؟ سوال ۲۰۳: نماز ادا کرنے کے لیے افضل وقت کون سا ہے؟ کیا اول وقت افضل ہے؟ جواب :زیادہ کامل نماز وہ ہے جسے اس وقت ادا کیا جائے جو اس کے لیے شرعاً مطلوب ہے، اسی لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شخص کے جواب میں کہ جس نے آپ سے یہ پوچھا تھا کہ اللہ عزوجل کے نزدیک سب سے زیادہ پسندیدہ عمل کون سا ہے؟ فرمایا تھا: ((اَلصَّلَائُ عَلٰی وَقْتِہَا)) (صحیح البخاری، المواقیت، باب فضل الصلاۃ لوقتہا، ح: ۵۲۷ وصحیح مسلم، الایمان، باب بیان کون الایمان باللّٰه تعالی افضل الاعمال، ح:۸۵ (۱۳۹)۔) ’’اپنے وقت پر نماز کی ادائیگی۔‘‘ آپ نے یہاں یہ نہیں فرمایا کہ اول وقت میں نماز کیونکہ کچھ نمازیں ایسی ہیں جنہیں جلدی پڑھنا مسنون ہے اور بعض ایسی ہیں، جن میں تاخیر مسنون ہے، مثلاً: نماز عشاء کو رات کے تہائی حصہ تک مؤخر کرنا مسنون ہے۔ ایک خاتون خانہ اگر یہ پوچھے کہ اس کے لیے افضل کیا ہے، اذان عشاء کے وقت عشا کی نماز کو ادا کرنا یا اسے رات کے تہائی حصے تک مؤخر کرنا؟ تو ہم عرض کریں گے کہ اس کے لیے افضل یہ ہے کہ نماز کو رات کے تہائی حصے تک مؤخر کرے کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک رات نماز کو اس قدر مؤخر کیا کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا: یا رسول اللہ! عورتیں اور بچے سو گئے ہیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے، نماز پڑھائی اور فرمایا: ((اِن ھذاُ لَوَقْتُہَا لَوْ لَا اَنْ اَشُقَّ عَلٰی اُمَّتِیْ)) (صحیح مسلم، المساجد، باب وقت العشاء وتاخیرہا،
[1] فتاویٰ اللجنۃ: ۶/۸۸۔