کتاب: فتاوی ارکان اسلام - صفحہ 243
واجب ہے کہ وہ انہیں اصرار کے ساتھ بار بار دعوت دیتا رہے، شاید اللہ تعالیٰ انہیں ہدایت دے دے کیونکہ تارک نماز کتاب وسنت، اقوال صحابہ اور عقلی دلائل کی روشنی میں کافر ہے۔ والعیاذ باللّٰہ
جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ بے نمازی کافر نہیں، میں نے ان کے دلائل پر غور کیا ہے، وہ درج ذیل چار حالتوں سے خالی نہیں ہیں:
٭ ان کے پاس اصلاً کوئی دلیل ہی نہیں ہے۔
٭ یا یہ کسی ایسے وصف کے ساتھ مقید ہیں، جس کے ساتھ ترک نماز ممنوع ہے۔
٭ یا یہ کسی ایسی حالت کے ساتھ مقید ہیں، جس میں تارک نماز معذور ہے۔
٭ یا یہ دلائل عام ہیں، جب کہ تارک نماز کے کفر کی احادیث خاص ہیں۔
کتاب وسنت سے یہ قطعاً ثابت نہیں کہ تارک نماز مومن ہے یا یہ کہ وہ جنت میں داخل ہوگا یا یہ کہ وہ دوزخ سے نجات پا جائے گا تاکہ ہم تارک نماز کے بارے میں وارد کفر کی یہ تاویل کر سکیں کہ اس سے مراد کفران نعمت یا کفر دون کفر ہے۔ جب یہ بات واضح ہوگئی کہ تارک نماز کافر اور مرتد ہے تو اس کے کفر پر مرتدین کے احکام مرتب ہوں گے، جو حسب ذیل ہیں:
۱۔ اسے رشتہ دینا صحیح نہیں۔ اگر اس کے نماز نہ پڑھنے کے باوجود عقد نکاح ہوگیا تو یہ نکاح باطل ہوگا اور اس کی وجہ سے بیوی اس کے لیے حلال نہ ہوگی کیونکہ مہاجر عورتوں کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے بیان فرمایا ہے:
﴿فَاِنْ عَلِمْتُمُوْہُنَّ مُؤْمِنَاتٍ فَلَا تَرْجِعُوْہُنَّ اِلَی الْکُفَّارِ لَا ہُنَّ حِلٌّ لَّہُمْ وَلَا ہُمْ یَحِلُّوْنَ لَہُنَّ﴾ (الممتحنۃ: ۱۰)
’’سو اگر تم کو معلوم ہو کہ وہ مومن ہیں تو ان کو کفار کے پاس واپس نہ بھیجو کیونکہ نہ یہ ان کے لیے حلال ہیں اور نہ وہ ان کے لئے جائز ہیں۔‘‘
۲۔ اگر اس نے عقد نکاح کے بعد نماز کو ترک کیا ہے تو اس کا نکاح فسخ ہو جائے گا اور بیوی اس کے لیے حلال نہ ہوگی جیسا کہ اس آیت کریمہ سے معلوم ہو رہا ہے جسے ہم نے قبل ازیں ذکر کیا ہے اور قبل از دخول اور بعد از دخول کے اعتبار سے اس کی تفصیل اہل علم کے ہاں معروف ہے۔
۳۔ یہ شخص جو نماز نہیں پڑھتا اگر وہ کسی جانور کو ذبح کرے تو اس کے ذبیحہ کو نہیں کھایا جائے گا، کیوں؟ کہ اس لیے کہ وہ حرام ہے۔ اگر کوئی یہودی یا عیسائی جانور ذبح کرے تو اس کے ذبیحہ کو ہمارے لیے کھانا حلال ہے، گویا بے نمازی کا ذبیحہ یہود ونصاریٰ کے ذبیحہ سے زیادہ خبیث ہے۔
۴۔ بے نمازی کے لیے مکہ مکرمہ یا حدود حرم میں داخل ہونا حلال نہیں کیونکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اِنَّمَا الْمُشْرِکُوْنَ نَجَسٌ فَلَا یَقْرَبُوا الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ بَعْدَ عَامِہِمْ ہٰذَا﴾ (التوبۃ: ۲۸)
’’اے مومنو! مشرک تو پلید ہیں، لہٰذا اس برس کے بعد وہ خانہ کعبہ کے پاس نہ جانے پائیں۔‘‘
۵۔ اس کے قرابت داروں میں سے اگر کوئی فوت ہو جائے تو اس کی میراث میں اس کا کوئی حق نہیں ہوگا۔ فرض کریں کہ اگر ایک شخص فوت ہو جائے اور اس کا بیٹا نماز نہ پڑھتا ہو، یعنی وہ شخص تو مسلمان ہے اور نماز پڑھتا ہے اور اس کا بیٹا نماز نہیں پڑھتا اور ایک اس کے چچا کا بیٹا (عصبہ) ہے تو اس کے چچا کا بیٹا جو قرابت میں اس سے دور ہے، وہ تو اس کا وارث ہوگا مگر اس کا اپنا حقیقی بیٹا