کتاب: فتاوی ارکان اسلام - صفحہ 241
((لَا تُشْرِکُوا بِاللّٰہِ شَیْئًاْ وَلَا تَتْرُکُوا الصَّلَاۃَ مُتَعَمِّدًا فَمَنْ تَرَکَہَا مُتَعَمِّدًاْ خَرَجَ مِنَ الْمِلَّۃِ)) (مجمع الزوائد للّٰه یثمی: ۴/ ۲۱۶۔)
’’اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی کو شریک نہ بناؤ،اور نماز جان بوجھ کر ترک نہ کرو کیونکہ جس شخص نے جان بوجھ کر ترک کردی، وہ ملت(اسلام) سے خارج ہو گیا۔‘‘
اس بارے میں حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے آثار بھی موجود ہیں، مثلاً: حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے فرمایا ہے:
((لَا اِسلامَ لِمَن ترک الصلاۃْ )) (الترغیب والترہیب: ۱/ ۳۸۱ صحیح موقوفًا۔)
’’جس نے نماز ترک کردی اس کا کوئی ایمان نہیں۔‘‘
عبداللہ بن شقیق نے کہا ہے کہ:
((کَانَ اَصْحَابُ النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم لَا یَرَوْنَ شَیْئًا مِنَ الْاَعْمَالِ تَرْکُہُ کُفْرٌ غَیْرَ الصَّلَاۃِ۔))( جامع الترمذی ، الایمان ، باب ما جاء فی ترک الصلاۃ۔)
’’اصحاب نبی( صلی اللہ علیہ وسلم )نماز کے سوا اور کسی عمل کے ترک کو کفر قرار نہیں دیتے تھے۔‘‘
جہاں نقلی دلیل تارک نماز کو کافر قرار دیتی ہے، وہاں نظری دلیل سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے۔ امام احمد رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ جو شخص نماز کو حقیر جانے اور اس کی توہین کرے، تو وہ اسلام کو حقیر جانتا اور اس کی توہین کرتا ہے۔ اسلام میں ان کا حصہ اتنا ہوگا، جتنا نماز میں ان کا حصہ ہے، اسلام میں ان کی رغبت اتنی ہوگی، جتنی نماز میں ان کی رغبت ہے۔
امام ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ وہ شخص ترک نماز پر ہمیشہ اصرار نہیں کر سکتا، جو اس بات کی تصدیق کرتا ہو کہ اللہ تعالیٰ نے اس کا حکم دیا ہے کیونکہ عادت اور طبیعت کے اعتبار سے یہ بات محال ہے کہ آدمی اس بات کی پکی سچی تصدیق بھی کرتا ہو کہ اللہ تعالیٰ نے ہر دن رات میں اس پر پانچ نمازوں کو فرض قرار دیا ہے اور ان کے ترک کر دینے کی وجہ سے سخت ترین سزا دے گا اور اس کے باوجود بندہ ترک نماز پر اصرار کرے۔ یہ بات قطعی طور پر محال ہے کیونکہ جو شخص اس کی فرضیت کی تصدیق کرتا ہو وہ کبھی اسے ترک نہیں کر سکتا کیونکہ ایمان اسے نماز پڑھنے کا حکم دے گا اگر اس کے دل میں کوئی ایسی چیز نہیں ہے جو اسے نماز کا حکم دے تو اس کے معنی یہ ہیں کہ اس کا دل ایمان سے خالی ہے، اس شخص کی بات کو نہ سنو، جسے دلوں کے احکام اور اعمال کی خبر ہے نہ علم۔[1]
امام ابن قیم رحمہ اللہ نے یہ بالکل سچ بیان فرمایا ہے کہ انسان کے دل میں ایمان ہو تو یہ محال ہے کہ وہ نماز کو ترک کرے کیونکہ اسے بہت آسانی سے ادا کیا جا سکتا ہے، اوراسے ادا کرنے سے بہت زیادہ ثواب ملے گا، ترک کرنے کی صورت میں عذاب بھی بہت زیادہ ہوگا جب کتاب وسنت کے دلائل سے یہ بات واضح ہوگئی کہ تارک نماز کافر اور دائرۂ اسلام سے خارج ہے تو پھر یہ حلال نہیں کہ وہ کسی مسلمان عورت سے شادی کرے کیونکہ نص اور اجماع سے اس کی حرمت ثابت ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿وَ لَا تَنْکِحُوا الْمُشْرِکٰتِ حَتّٰی یُؤْمِنَّ وَ لَاَمَۃٌ مُّؤْمِنَۃٌ خَیْرٌ مِّنْ مُّشْرِکَۃٍ وَلَوْاَعْجَبَتْکُمْ﴾ (البقرۃ: ۲۲۱)
[1] مجموعۃ الحدیث، الصلاۃ ص: ۴۰۰۔