کتاب: فتاوی ارکان اسلام - صفحہ 240
نیز حضرت بریدہ بن حصیب رضی اللہ عنہ سےروایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا :
((اَلْعَہْدُ الَّذِی بَیْنَنَا وَبَیْنَہُمْ الصَّلَاۃُ فَمَنْ تَرَکَہَا فَقَدْ کَفَرَ)) ( جامع الترمذی، الایمان، باب ماجاء فی ترک الصلاۃ، ح: ۲۶۲۱ وسنن النسائی، الصلاۃ، باب الحکم فی تارک الصلاۃ، ح: ۴۶۴، وسنن ابن ماجہ، اقامۃ الصلاۃ، باب ماجاء فیمن ترک الصلاۃ، ح: ۱۰۷۹ ومسند احمد: ۵/ ۳۴۶۔)
’’ہمارے اور ان کے درمیان عہد نماز کا ہے۔ جس نے اسے ترک کر دیا اس نے کفر کیا۔‘‘
حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اس بات پر بیعت کی کہ وہ اہل حکومت سے حکومت کے بارے میں نہیں جھگڑیں گے الایہ کہ تم ان کے ہاں کھلم کھلا کفر دیکھو جس میں تمہارے پاس اللہ کی طرف سے برہان موجود ہو۔[1]
اس حدیث کے معنی یہ ہیں کہ وہ حکمرانوں سے اس بارے میں جھگڑا نہیں کریں گے، جس کا اللہ تعالیٰ نے انہیں حاکم بنا دیا ہے۔ الایہ کہ وہ ان کی طرف سے کسی صریح کفر کا ارتکاب دیکھیں، جس کے کفر ہونے کے بارے میں ان کے پاس اللہ تعالیٰ کی طرف سے دلیل موجود ہو۔ اس حدیث کے مفہوم کو سمجھنے کے بعد اس حدیث کو بھی دیکھیں جسے امام مسلم رحمہ اللہ نے بروایت حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا بیان کیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
((سَتَکُونُ اُمَرَآئُ فَتَعْرِفُونَ وَتُنْکِرُونَ فَمَنْ عَرَفَ بَرِیئَ وفی لفظ فَمَنْ کَرِہَ فَقَدْ بَرِیئَ وَمَنْ اَنْکَرَ سَلِمَ وَلٰکِنْ مَنْ رَضِیَ وَتَابَعَ قَالُوا اَفَلَا نُقَاتِلُہُمْ قَالَ لَا مَا صَلُّوْا)) (صحیح مسلم، الایمان، باب وجوب الانکار علی الامراء فیما یخالف الشرع وترک قتالہم ما صلوا، ونحو ذلک، ح: ۱۸۵۴۔)
’’عنقریب ایسے حکمران ہوں گے جن کو تم پہچان لو گے اور ان کا انکار کرو گے۔ جس نے پہچان لیا وہ بری ہوگیا۔‘‘ ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ ’’جس نے ان کو ناپسند کیا، وہ بری ہوگیا۔ جس نے انکار کیا وہ سلامت رہا لیکن جس شخص نے رضامندی کا اظہار کیا اور جس نے ان کا اتباع کیا (تو وہ ہلاک ہوگیا)‘‘ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا: کیا ہم ان کے خلاف لڑائی نہ کریں؟ فرمایا: ’’نہیں جب تک وہ نماز پڑھتے رہیں۔‘‘ (لڑائی نہ کرو)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جب وہ نماز پڑھیں تو پھر ان سے لڑائی نہیں کی جائے گی اور اس سے پہلے مذکور حدیث عبادہ رضی اللہ عنہ سے معلوم ہوا کہ ان سے جھگڑا نہیں کیا جائے گا، جب جھگڑا نہیں کیا جائے گا تو لڑائی بالاولیٰ نہیں کی جائے گی الایہ کہ وہ کفر صریح کا ارتکاب کریں جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے برہان موجود ہے۔ یہ ہیں کتاب اللہ اور سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے دلائل کہ تارک نماز کافر اور دائرۂ اسلام سے خارج ہے جیسا کہ صراحت کے ساتھ اس حدیث میں بھی آیا ہے، جسے ابن ابی حاتم نے اپنی سنن میں حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں یہ وصیت فرمائی:
[1] صحیح البخاری، الفتن، باب قول النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم سترون بعدی امور… حدیث: ۷۰۵۶۔