کتاب: فتاوی ارکان اسلام - صفحہ 238
فیمن ترضون دینہ وخلقہ فزوجوہ، ح: ۱۰۸۵ وقال الترمذی: ہذا حدیث حسن غریب وسنن ابن ماجہ، النکاح، باب الاکفاء، ح: ۱۹۶۷۔)
’’جب تمہارے پاس کوئی ایسا شخص آئے، جس کے دین واخلاق کو تم پسند کرتے ہو تو اس سے نکاح کر دو، اگر ایسا نہ کرو گے تو زمین میں فتنہ و فساد پیدا ہو جائے گا۔‘‘ صحابہ نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! اگر اس میں کوئی بات موجود ہو؟ آپ نے فرمایا: جب تمہارے پاس کوئی ایسا شخص آئے، جس کے دین واخلاق کو تم پسند کرتے ہو تو اس کا نکاح کر دو، آپ نے تین بار یہ کلمات دہرائے ۔‘‘
نیز صحیحین اور دیگر کتب میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی یہ حدیث ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
((تُنْکَحُ الْمَرْأَۃُ لأَرْبَعٍ: لِمَالِہَا، وَلَحَسَبِہَا، وَلِجَمَالِہَا، وَلِدِیْنِہَا، فاَظْفَرْ بِذَاتِ الدِّیْنِ تَرِبَتْ یَدَاکَ)) (صحیح البخاری، النکاح، باب الاکفاء فی الدین، ح: ۵۰۹۰ وصحیح مسلم، الرضاعء، باب استحباب نکاح ذات الدین، ح: ۱۴۶۶ واللفظ لہ۔)
’’عورت سے چار چیزوں کی وجہ سے نکاح کیا جاتا ہے: اس کے مال کی وجہ سے، اس کے حسب ونسب کی وجہ سے، اس کے جمال کی وجہ سے اور اس کے دین کی وجہ سے۔ تم دین والی عورت سے نکاح میں کامیابی حاصل کرو، کامیابی وسعادت مندی سے ہم کنار ہوجاؤ گے۔‘‘
یہ دونوں حدیثیں اس بات کی دلیل ہیں کہ مرد اور عورت کے اس سلسلہ میں دین اور خلق کے پہلو کو سب سے زیادہ ترجیح دی جائے، اللہ تعالیٰ سے ڈرنے اور اپنی ذمہ داری کا احساس کرنے والے کو چاہیے کہ وہ سب سے زیادہ اہمیت اس بات کو دے جس کی طرف نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے راہنمائی فرمائی ہے کیونکہ روز قیامت اس سے اس بارے میں پوچھا جائے گا۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿وَ یَوْمَ یُنَادِیْہِمْ فَیَقُوْلُ مَاذَآ اَجَبْتُمُ الْمُرْسَلِیْنَ، ﴾ (القصص: ۶۵)
’’اور جس روز (اللہ) ان کو بلائے گا اور کہے گا کہ تم نے پیغمبروں کو کیا جواب دیا۔‘‘
اور فرمایا:
﴿فَلَنَسْئَلَنَّ الَّذِیْنَ اُرْسِلَ اِلَیْہِمْ وَ لَنَسْئَلَنَّ الْمُرْسَلِیْنَ، فَلَنَقُصَّنَّ عَلَیْہِمْ بِعِلْمٍ وَّ مَا کُنَّا غَآئِبِیْنَ، ﴾ (الاعراف: ۶۔۷)
’’تو جن لوگوں کی طرف پیغمبر بھیجے گئے ہم ان سے بھی پرسش کریں گے اور پیغمبروں سے بھی پوچھیں گے، پھر اپنے علم سے ان کے حالات بیان کریں گے اور ہم کہیں غائب تو نہیں تھے۔‘‘
اگر رشتہ طلب کرنے والا بالکل نماز نہ پڑھتا ہو، نہ جماعت کے ساتھ اور نہ انفرادی طور پر تو وہ کافر اور خارج از اسلام ہے۔ ضروری ہے کہ اس سے توبہ کا مطالبہ کیا جائے۔ اگر وہ توبہ کر کے نماز پڑھنا شروع کر دے، تو اللہ تعالیٰ اس کی توبہ قبول فرما لے گا بشرطیکہ توبہ پکی اور سچی ہو اور خالص اللہ تعالیٰ کے لیے کی گئی ہو، ورنہ کافر اور مرتد ہونے کی وجہ سے اسے قتل کر دیاجائے گا اور غسل، کفن اور نماز جنازہ کے بغیر اسے غیر مسلموں کے قبرستان میں دفن کیا جائے گا۔ اس شخص کے کفر پر کتاب اللہ اور سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں بہت سے دلائل موجود ہیں۔ کتاب اللہ میں ارشاد باری تعالیٰ ہے: