کتاب: فتاوی ارکان اسلام - صفحہ 237
’’جب انسان فوت ہو جاتاہے تو تین چیزوں کے سوا اس کے دیگر اعمال منقطع ہو جاتے ہیں: صدقہ جاریہ، علم، جس کے ساتھ نفع حاصل کیا جا رہا ہو یا نیک اولاد، جو اس کے لیے دعا کرتی ہو۔‘‘
سوال ۱۸۷: جو شخص نماز فجر کو اس قدر مؤخر کرتا ہو کہ اس کا وقت ہی نکل جاتا ہو تو اس کے بارے میں کیا حکم ہے؟
جواب :جو لوگ نماز فجر کو اس قدر تاخیر سے ادا کریں کہ اس کا وقت ہی ختم ہو جائے، اگر وہ یہ عقیدہ رکھیں کہ ایسا کرنا حلال ہے تو یہ اللہ عزوجل کے ساتھ کفر ہے کیونکہ جو شخص بلا عذر نماز کو اس کے وقت سے مؤخر کرنے کو حلال سمجھے تو وہ کتاب وسنت اور اجماع امت کی مخالفت کی وجہ سے کافر ہے۔ اگر وہ اسے حلال نہ سمجھے اور تاخیر کی وجہ سے اپنے آپ کو گناہ گار تصور کرے لیکن اس پر نفس کا اور نیند کا غلبہ ہو تو اسے اللہ تعالیٰ کے آگے توبہ کرنی چاہیے اور اس فعل کو ترک کر دینا چاہیے۔ توبہ کا دروازہ کھلا ہے حتیٰ کہ سب سے بڑے کافر کے لیے بھی۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿قُلْ یٰعِبٰدِیَ الَّذِیْنَ اَسْرَفُوْا عَلٰٓی اَنْفُسِہِمْ لَا تَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَۃِ اللّٰہِ اِنَّ اللّٰہَ یَغْفِرُ الذُّنُوْبَ جَمِیْعًا اِنَّہٗ ہُوَ الْغَفُوْرُ الرَّحِیْمُ﴾ (الزمر: ۵۳)
’’اے پیغمبر (میری طرف سے) لوگوں سے کہہ دو کہ اے میرے بندو! جنہوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی ہے، اللہ کی رحمت سے ناامید نہ ہونا، بے شک اللہ سب گناہوں کو بخش دیتا ہے بلا شبہ وہی تو بخشنے والا مہربان ہے۔‘‘
جس شخص کو ایسے کاموں کا علم ہو وہ انہیں نصیحت کرے اور نیکی کی طرف توجہ دلائے۔ اگر وہ توبہ کرلیں تو بہت بہتر ورنہ وہ اس سلسلہ میں متعلق اداروں سے اس کی شکایت کرے تاکہ وہ خود بری الذمہ ہو جائے اور ذمہ دار ادارے اس طرح کے لوگوں کو ادب سکھا سکیں۔ واللّٰه الموفق
کیا بے نماز کو بیٹی کا رشتہ دینا جائز ہے ؟
سوال ۱۸۸: جب کوئی شخص کسی سے اس کی بیٹی کا رشتہ طلب کرے اور اس کے بارے میں معلوم ہو کہ وہ نماز نہیں پڑھتا اور جس سے اس کے بارے میں پوچھا گیا ہو وہ یہ کہے کہ اللہ اسے ہدایت دے دے گا تو کیا ایسی صورت میں وہ اسے رشتہ دے دے؟
جواب :اگر رشتہ طلب کرنے والا باجماعت نماز ادا نہیں کرتا تو وہ فاسق ، اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کا نافرمان اور مسلمانوں کے اس اجماع کا مخالف ہے کہ نماز باجماعت ادا کرنا سب سے افضل عبادت ہے۔ شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ مجموع الفتاویٰ (۲۳/۲۲۲) میں فرماتے ہیں کہ علماء کا اس بات پر اتفاق ہے کہ نماز باجماعت ایک ایسی عبادت ہے جس کی سب سے زیادہ تاکید آئی ہے۔ یہ سب سے بڑی اطاعت اور شعائر اسلام میں سب سے عظیم شعار ہے، تاہم اس فسق کی وجہ سے وہ دائرۂ اسلام سے خارج نہیں ہوگا، لہٰذا اس کے لیے کسی مسلمان عورت سے شادی کرنا جائز ہے لیکن دوسرے لوگ جنہیں دین واخلاق پر استقامت ہو، اس سے بہتر ہوں گے، خواہ وہ مال و دولت اور حسب و نسب کے اعتبار سے اس سے کم مرتبہ ہی کیوں نہ ہوں، جیسا کہ حدیث میں آیا ہے:
((إِذَا جَائَ کُمْ مَنْ تَرْضَوْنَ دِینَہُ وَخُلُقَہُ فَأَنْکِحُوْہُ قَالُوْا: یَا رَسُولَ اللّٰہِ وَاِنْ کَانَ فِیْہِ؟ قَالَ: اِذَا جَائَ کُمْ مَنْ تَرْضَوْنَ وَخُلُقَہُ فَانْکِحُوْہُ۔ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ)) (جامع الترمذی، النکاح، باب ماجاء،