کتاب: فتاوی ارکان اسلام - صفحہ 236
ہو جائے اور اس اعتبار سے کوئی فرق نہیں کہ نماز کو طویل عرصے تک مؤخر کیا جائے یا قلیل عرصے تک کیونکہ دونوں صورتوں میں نماز اپنے وقت سے خارج ہو جاتی ہے۔ شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے بھی اسی بات کو اختیار کیا ہے کہ نماز کو مؤخر نہ کیا جائے۔
کیا غلبہ نیند کی وجہ سے نماز فجر کو مؤخر کرنے کی عادت بنا لینا جائز ہے ؟
سوال ۱۸۶: جو شخص رات کو بیدار رہتا ہے اور نماز فجر وقت ختم ہو جانے کے بعد پڑھتا ہے تو کیا اس کی نماز قبول ہو جاتی ہے؟ دیگر نمازیں، جنہیں وہ وقت پر ادا کرتا ہے ان کے بارے میں کیا حکم ہے؟
جواب :نماز فجر جسے وہ وقت سے مؤخر کر کے ادا کرتا ہے، جب کہ اسے وقت پر ادا کرنا اس کے لیے ممکن ہے کیونکہ اگر وہ چاہے تو رات کو جلد سو سکتا ہے، اس کی یہ نماز قبول نہیں ہوگی کیونکہ آدمی جب نماز کو بغیر عذر کے وقت سے مؤخر کر کے پڑھے تو اس کی نماز قبول نہیں ہوتی، جیسا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:
((مَنْ عَمِلَ عَمَلًا لَیْسَ عَلَیْہِ اَمْرُنَا فَہُوَ رَدٌّ)) (صحیح مسلم، الاقضیۃ باب نقض الاحکام الباطلۃ ح:۱۷۱۸، ۱۸۔)
’’جس شخص نے کوئی ایسا عمل کیا جس کے بارے میں ہمارا امر نہ ہو تو وہ مردود ہے۔‘‘
جو شخص جان بوجھ کر بلا عذر نما زکو وقت سے مؤخر کرتا ہے تو وہ ایک ایسا عمل کرتا ہے جس کا اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم نہیں دیا ہے، لہٰذا وہ مردود ہے۔ اگر وہ یہ کہے کہ میں نماز فجرکے وقت سویا ہوتا ہوں اور سوئے ہوئے شخص کے بارے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:
((مَنْ نَام عنَ صَلَاۃً اَو نسیھا فلیصلھا اذاذکرھاْ لَا کَفَّارَۃَ لَہَا إِلَّا ذَلِکَ)) ( صحیح البخاری، المواقیت باب من نسی صلاۃ فلیصل اذا ذکر، ح: ۵۹۷ وصحیح مسلم، المساجد، باب قضاء الصلاۃ الفائتۃ، ح: ۶۸۴ (۳۱۵) واللفظ لہ۔)
’’جو شخص کسی نماز کے وقت سوجائے یا کوئی نماز بھول جائے تو جب یاد آئے اس وقت اس کو ادا کرلے اس کے علاوہ اس اور کوئی کفارہ نہیں ۔‘‘
تو ہم کہیں گے اس کے لیے ممکن تھا کہ جلد سو جاتا تاکہ جلد بیدار ہوتا یا اپنے پاس الارم لگا کر گھڑی رکھ لیتا یا کسی کو کہہ دیتا کہ وہ اسے بیدار کر دے، لہٰذا اس کا نماز کو مؤخر کرنا اور وقت پر ادا نہ کرنا، نماز کو عملاً مؤخر کرنا قرار پائے گا،اس بنیادپریہ نماز قبول نہ ہوگی۔ باقی نمازیں جنہیں وہ وقت پر ادا کرتا ہے وہ قبول ہوں گی۔ اس مناسبت سے میں یہاں یہ بات بھی کہنا چاہتا ہوں کہ مسلمان کے لیے واجب ہے کہ وہ عبادت اس طرح کرے جس سے اللہ تعالیٰ راضی ہو جائے کیونکہ دنیا کی اس زندگی میں وہ اللہ تعالیٰ کی عبادت ہی کے لیے پیدا کیا گیا ہے۔ وہ نہیں جانتا کہ اسے کب موت آجائے اور کس وقت وہ عالم آخرت اور دار جزا کی طرف سدھار جائے جہاں کوئی عمل نہیں ہے جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:
((اِذَا مَاتَ الْاِنْسَانُ انْقَطَعَ عَنْہُ عَمَلُہُ اِلاَّ مِنْ ثَلَاثَۃٍ:ْ صَدَقَۃٍ جَارِیَۃٍ، اَوْ عِلْمٍ یُنْتَفَعُ بِہِ اَوْ وَلَدٍ صَالَحٍ یَدْعُو لَہُ)) (صحیح مسلم، الوصیۃ، باب ما یلحق الانسان من الثواب بعد وفاتہ ح: ۱۶۳۱، (۱۴)۔)