کتاب: فتاوی ارکان اسلام - صفحہ 235
باب من نسی صلاۃ فلیصل اذا ذکر، ح: ۵۹۷ وصحیح مسلم، المساجد، باب قضاء الصلاۃ الفائتۃ، ح: ۶۸۴ (۳۱۵) واللفظ لہ۔) ’’جو شخص کوئی نمازمیں سے سویا رہے یا بھول جائے تو اس کا کفارہ یہ ہے کہ اسے جب یاد آئے، اسے پڑھ لے۔‘‘ کیونکہ سوئے ہوئے شخص میں ادراک ہے اگر اسے اگر بیدار کیا جائے تو وہ بیدار ہو سکتا ہے لیکن بے ہوشی میں مبتلا انسان کو اگر بیدار کیا جائے تو وہ بیدار نہیں ہو سکتا، یہ اس صورت میں ہے جب بے ہوشی بغیر سبب کے ہو اور اگر اس کا کوئی سبب ہو، مثلاً: بھنگ وغیرہ کے استعمال کی وجہ سے بے ہوش ہوا ہو تو اسے بے ہوشی میں گزری ہوئی نمازوں کی قضا ادا کرنی ہوگی۔ واللّٰہ اعلم سوال ۱۸۴: ایک شخص کو دو مہینے کسی بھی چیز کا شعور نہ رہا، جس کی وجہ سے اس نے نماز پڑھی اور نہ رمضان کے روزے رکھے، تو اس کا کیا حکم ہے؟ جواب :شعور گم ہونے کی وجہ سے اس پر کچھ بھی واجب نہیں لیکن اللہ کرے کہ اگر اسے افاقہ ہو جائے تو رمضان کی قضا اس پر لازم ہوگی اور اگر وہ قضائے الٰہی سے فوت ہو جائے تو اس کے ذمہ کچھ نہ ہوگا اور اگر وہ دائمی طور پر معذور لوگوں میں سے ہو جیسے بہت بوڑھا تو اس پر فرض یہ ہے کہ اس کا ولی اس کی طرف سے ہر روز ایک مسکین کو کھانا کھلا دے۔ نماز کی قضا کے بارے میں علماء کے دو قول ہیں: ۱۔ جمہور کا قول ہے کہ اس کے ذمہ قضا نہیں ہے کیونکہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما پر ایک دن رات بھر بے ہوشی طاری رہی تو انہوں نے اس دوران فوت ہو جانے والی نمازوں کی قضا نہیں کی تھی۔[1] ۲۔ دوسرے قول کے مطابق اس پر قضا لازم ہے، یہ متاخرین حنابلہ کا مذہب ہے ’’الانصاف‘‘ میں لکھا ہے کہ یہ تفردات مذہب میں سے ہے اور اس کی دلیل حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہما کے بارے میں مروی یہ قول ہے کہ ان پر ایک دن اور ایک رات بے ہوشی طاری رہی تو انہوں نے اس عرصہ میں فوت ہو جانے والی نمازوں کی قضا کی تھی۔[2] کیا شروط نماز کی تکمیل کی خاطر نماز مؤخر کی جا سکتی ہے ؟ سوال ۱۸۵: کیا انسان کے لیے یہ جائز ہے کہ وہ نماز کی شروط میں سے کسی شرط کے حاصل کرنے کی وجہ سے نماز کو مؤخر کرے، مثلاً: وہ پانی نکالنے میں مشغول ہو؟ جواب :صحیح بات یہ ہے کہ نماز کو اپنے وقت سے مؤخر کرنا بالکل جائز نہیں ہے، جب انسان کو وقت ختم ہو جانے کا اندیشہ ہو تو وہ اپنے حال کے مطابق نماز پڑھ لے، خواہ حصول شرط عنقریب ممکن ہو کیونکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿اِنَّ الصَّلٰوۃَ کَانَتْ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ کِتٰبًا مَّوْقُوْتًا﴾ (النساء: ۱۰۳) ’’بے شک نماز کا مومنوں پر اوقات (مقررہ) میں ادا کرنا فرض ہے۔‘‘ اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان اوقات مقررہ کا تعین فرما دیا ہے اور اس کا تقاضا یہ ہے کہ نماز کو اس کے وقت میں ادا کرنا واجب ہے۔ اگر شرطوں کے حصول کے لیے انتظار کرنا جائز ہو تو پھر تیمم کو مشروع قرار دینا صحیح نہ ہوتا کیونکہ ممکن ہے کہ وقت کے بعد پانی حاصل
[1] ! ’’المصنف‘‘ لعبدالرزاق: ۲/ ۴۷۹۔ [2] ’’المصنف‘‘ لعبدالرزاق: ۲/ ۴۷۹۔