کتاب: فتاوی ارکان اسلام - صفحہ 185
تعبیر موجود ہے کہ ’’ہم اتفاق سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے۔‘‘ اور ’’اتفاق سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس تشریف لے آئے‘‘ لیکن اس سلسلہ میں مجھے فی الحال کوئی معین حدیث یاد نہیں آرہی ہے۔[1] انسان کے حوالہ سے کسی چیز کا اتفاق سے پیش آجانا امر واقع ہے کیونکہ انسان غیب نہیں جانتا۔ اسے غیر شعوری اور غیر متوقع طور پر اتفاق سے کوئی چیز پیش آسکتی ہے لیکن اللہ تعالیٰ کے حوالے سے ایسا نہیں ہوتا کیونکہ اللہ تعالیٰ کو تو ہر چیز معلوم ہے، اس کے ہاں ہر چیز کا ایک اندازہ مقرر ہے۔ اس کے ہاں کبھی کوئی چیز اتفاق سے پیش نہیں آتی، لیکن مجھے اور آپ کو کوئی چیز کسی وعدہ، کسی شعور اور کسی پیشگی اطلاع کے بغیر پیش آسکتی ہے، ایسے موقع پر کہتے ہیں کہ یہ چیز اتفاق سے پیش آگئی ہے، لہٰذا ایسا کہنے میں کوئی حرج نہیں لیکن اللہ تعالیٰ کی ذات گرامی کے لیے اس طرح کے الفاظ کا استعمال ممنوع اور ناجائز ہے۔ ’’اسلامی فکر‘‘ یا ’’اسلامی مفکر‘‘ کی اصطلاح استعمال کرنا کیسا ہے ؟ سوال ۱۱۴: ’’اسلامی فکر‘‘ یا ’’اسلامی مفکر‘‘ کی اصطلاح کے استعمال کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟ جزاکم اللّٰہ خیرا جواب :’’اسلامی فکر‘‘ کے الفاظ کے استعمال سے اجتناب کرنا چاہیے کیونکہ ان الفاظ کے معنی یہ ہیں کہ اسلام کو ہم نے گویا ایسے انکار سے عبارت قرار دیدیا جنہیں قبول بھی کیا جا سکتا ہے اور رد بھی۔ یہ ایک بہت خطرناک بات ہے جسے دشمنانِ اسلام نے غیر شعوری طور پر ہمارے معاشرے اور سوسائٹی میں داخل کر دیا ہے، البتہ ’’اسلامی مفکر‘‘ کے الفاظ میں مجھے کوئی حرج نہیں نظر آتا کیونکہ یہ تو ایک مسلمان شخص کی صفت ہے اور ایک مسلمان شخص مفکر ہو سکتا ہے۔ دین کو چھلکے او رمغز میں تقسیم کرنا باطل تقسیم ہے سوال ۱۱۵: ہم نے دین کو چھلکے اور مغز میں تقسیم کر رکھا ہے جیسا کہ ڈاڑھی کے مسئلے پر بات کرتے ہوئے لوگ اس قسم کی تقسیم کا حوالہ دیا کرتے ہیں تو کیا یہ بات صحیح ہے؟
[1] اس بارے میں صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں روایات موجود ہیں، مثلاً صحیح بخاری کے الفاظ ہیں: (ان فاطمۃ رضی اللّٰه عنہا اتت النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم تشکو الیہ ما تلقی فی یدہا من الرحی وبلغہا انہ جاء ہ فلم تصادفہ فذکرت ذلک لعائشۃ…) ’’حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں کہ آپ سے چکی کی مشقت کی شکایت کریں، کیونکہ انہیں خبر پہنچی تھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس غلام آئے ہیں، لیکن اتفاق سے ان کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات نہ ہوئی تو انہوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے آنے کا مقصد بیان کیا… (صحیح البخاری، النفقات، باب عمل المرأۃ فی بیت زوجہا، حدیث: ۵۳۶۱) صحیح مسلم کے الفاظ اس طرح ہیں: (انطلق رسول اللّٰه صلی اللّٰہ علیہ وسلم الی ام ایمن، فانطلقت معہ فناولتہ اناء فیہ شراب، قال: فلا ادری اصادفتہ صائما اولم یردہ…) ’’حضرت انس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ام ایمن رضی اللہ عنہا کے پاس تشریف لے گئے، میں بھی آپ کے ساتھ گیا، تو ام ایمن رضی اللہ عنہا نے آپ کو پانی کا پیالہ پکڑایا، انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: مجھے نہیں معلوم کہ آپ اتفاق سے روزے سے تھے یا آپ نے پانی کو رد نہیں کیا…‘‘ (صحیح مسلم، فضائل الصحابۃ‘ باب من فضائل ام ایمن، حدیث: ۲۴۵۳)