کتاب: فتاوی ارکان اسلام - صفحہ 18
’’اورجوکچھ رسول تمہیں دیں، اسے لے لو اورجس چیز سےمنع کر دیں، اس سے رک جاؤ۔‘‘ قرآن مجید نےنبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی نبوت و رسالت کے جس تشریعی مقام ومنصب کو پیش کیا ہے ، اس لحاظ سے آپ کی تمام احادیث ،فتاویٰ ،جامع احکام اور فصل خطاب کی حیثیت رکھتی ہیں ۔یوں فتاویٰ اسلامیہ کی اولین کتاب قرآن مجید اوراس کادوسرا قطعی اور حتمی ماخذ سنت رسول یا احادیث رسول ہیں جن کی روشنی میں خلافت راشدہ میں سیکڑوں موضوعات پر فتاویٰدیےگئے ۔ عہد صحابہ رضی اللہ عنہم میں ہمیں ایک سوتیس کے قریب ایسے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کےاسمائے گرامی ملتےہیں جنہوں نے کتاب وسنت کےادلہ شرعیہ کی روشنی میں ہزاروں مسائل ومشکلات کےجواب فراہم کیے ہیں اور یہ سب ذخیرہ امت مسلمہ کے پاس محفوظ ہےجس کی روشنی اوررہنمائی میں ائمہ محدثین اورمفتیان کرام نےہر صدی میں فتاویٰ دےہیں اور فتاویٰ کا یہ عظیم الشان ذخیرہ فقہ اسلامی کا ایک روشن اوردرخشاں باب ہے ۔ اسلامی فتاویٰ کےان ذخائر پر توجہ ڈالیں توان کےذریعے سے قرآن مجید کے عمدہ تفسیری نکات کے علاوہ احادیث کی تشریح و توضیح میں تعبیر نصوص کا علم بھی حاصل ہوتاہے ۔ ان فتاویٰ کے مطالعےسے مختلف صدیوں میں اسلامی معاشرت اور تمدن میں پیداہ ونےوالےتغیرات کا بھی علم ہوتا ہے جن کے تحت نئےنئے مسائل اور مشکلات پیدا ہوتی ہیں اورصاحب تقویٰ اہل علم ادلیہ شرعیہ کی روشنی میں ان کےجواب فراہم کرتے ہیں ۔یہی وجہ ہےکہ اسلامی فتاویٰ کایہ عظیم الشان ذخیرہ ملت اسلامیہ کی حیات مستقبلہ کی ضمانت فراہم کرتا ہے ۔ اس مرحلے پر ہم اس نقد وانتقاد کا ذکر کرنا بھی ضروری سمجھتےہیں جوایسےفتاویٰ کے ضمن میں اختیارکیاگیا ہے جوکم علم، مفاد پرست علمائے سوء نے اپنےمخصوص مفادات اور اغراض کی خاطر دیےہیں۔ اس موقع پر ہم حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی یہ حدیث بطورانتباہ پیش کرنا چاہیتےہیں ۔ ارشاد نبوی ہے : ((مَنْ قَالَ عَلَيَّ مَا لَمْ أَقُلْهُ، فَلْيَتَبَوَّأْ مَقْعَدَهُ مِنَ النَّارِ، وَمَنْ أُفْتِيَ بِفُتْيَا بِغَيْرِ عِلْمٍ، كَانَ إِثْمُ ذَلِكَ عَلَى مَنْ أَفْتَاهُ)) (مسند احمد:2/ 365) ’’جس نےمیر ی طرف ایسی بات منسوب کی جومیں نےنہیں کہی، وہ اپنا گھر جہنم میں بنا لے اورجس شخص نے علم کے بغیر فتویٰ دیا تو اس کاگناہ مفتی کے سر ہو گا ۔‘‘ اس لیےجہاں فتاویٰ کے منابع اور مراجع کاموزوں اور درست ہونا ضروری ہے ،وہاں مفتی کے لیے صاحب علم و بصیرت، زاہد وعابد اورزمانی ومکانی تغیرات کےوجوہ سےباخبر ہونا بھی ناگزیر ہے ۔ یہ اسی تعلیم کا نتیجہ ہےکہ بڑے برے عالم فتویٰ دینے سےگریز کا پہلو اختیار کرتے تھے یا اگر بعد میں انہیں اپنےفتویٰ کے برعکس کوئی دلیل مل جاتی ، تو فوراً اس سے رجوع کر لیتے تھے۔