کتاب: فتاوی ارکان اسلام - صفحہ 170
تعالیٰ سے دعا فرمائیں کہ اب وہ ہم سے بارش کو روک دے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دونوں ہاتھ اٹھائے اور یہ دعا کی: (اللّٰہُمَّ حَوَالَیْنَا وَلَا عَلَیْنَا) ’’اے اللہ! (بارش کو) ہمارے گرد وپیش لے جا اور اب ہم پر نہ برسا۔‘‘ آپ یہ دعا فرماتے ہوئے آسمان کی جس طرف بھی اشارہ کرتے بادل چھٹ جاتا حتیٰ کہ لوگ مسجد سے نکل کر دھوپ میں چلنے لگے۔‘‘[1]
اسی طرح بہت سے واقعات سے یہ ثابت ہے کہ حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں یہ درخواست کی کہ آپ ان کے لیے بطور خاص دعا فرمائیں، مثلاً: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب یہ ذکر فرمایا کہ آپ کی امت کے ستر ہزار افراد جنت میں کسی حساب وعذاب کے بغیر داخل ہوں گے یہ وہ لوگ ہوں گے جو نہ دم کرواتے ہیں، نہ داغ لگواتے ہیں۔
اسی طرح بہت سے واقعات سے یہ ثابت ہے کہ حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں یہ درخواست کی کہ آپ ان کے لیے بطور خاص دعا فرمائیں، مثلاً: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب یہ ذکر فرمایا کہ آپ کی امت کے ستر ہزار افراد جنت میں کسی حساب وکتاب ا ورعذاب وعقاب کے بغیر داخل ہوں گے یہ وہ لوگ ہوں گے جو نہ دم کرواتے ہیں، نہ داغ لگواتے ہیں، نہ بدشگونی سے کام لیتے ہیں اور اپنے رب کریم ہی پر بھروسہ رکھتے ہیں، تو عکاشہ بن محصن رضی اللہ عنہ نے کھڑے ہو کر عرض کیا: ’’اے اللہ کے رسول! آپ اللہ تعالیٰ سے دعا فرمائیں کہ وہ مجھے بھی انہی لوگوں میں سے بنا دے۔‘‘ آپ نے فرمایا: (انْتَ مِنْہُمْ) ’’تم انہی میں سے ہو۔‘‘[2] تو یہ بھی جائز وسیلے کی ایک صورت ہے کہ انسان اس شخص سے دعا کی درخواست کرے جس کی دعا کی قبولیت کی امید ہو اور سائل کو چاہیے کہ اس عمل سے اس کا ارادہ اپنے آپ کو اور اپنے اس بھائی کو نفع پہنچانا ہو، جس سے اس نے دعا کا مطالبہ کیا ہے، یعنی وہ صرف اپنے ہی لیے دعا کا خواستگار نہ ہو کیونکہ جب آپ کا ارادہ یہ ہوگا کہ آپ کے بھائی کو فائدہ پہنچے اور آپ کو بھی تو یہ آپ کی طرف سے بھائی کے ساتھ احسان ہو جائے گا۔ اس لیے جب کوئی انسان غائبانہ طور پر اپنے بھائی کے لیے دعا کرتاہے تو فرشتہ کہتا ہے: (امِیْنَ وَلَکَ بِمِثْلٍ)’’اللہ تعالیٰ آپ کی دعا کو قبول فرمائے اور آپ کو بھی اسی طرح عطا فرمائے۔‘‘[3]
ب: غیر صحیح وسیلہ: اس کی صورت یہ ہے کہ انسان تعالیٰ کی طرف کسی ایسی چیز کا وسیلہ پیش کرے جو سرے سے وسیلہ ہے ہی نہ ہو، یعنی جس کا وسیلہ ہونا شریعت میں ثابت ہی نہ ہو کیونکہ اس طرح کا وسیلہ لغو، باطل ہے اور معقول ومنقول کے خلاف ہواکرتا ہے، مثلاً: کوئی انسان اللہ تعالیٰ کی طرف کسی میت کی دعا کا وسیلہ پیش کرے، یعنی وہ اس میت سے یہ مطالبہ کرے کہ وہ اس کے لیے اللہ تعالیٰ سے دعا کرے تو یہ صحیح اور شرعی وسیلہ نہیں بلکہ یہ تووسیلہ اختیارکرنے والے انسان کی بے وقوفی اور حماقت کی دلیل ہے کہ وہ میت سے یہ مطالبہ کرے کہ وہ اس کے لیے اللہ تعالیٰ سے دعا کرےکیونکہ جب کوئی انسان فوت ہو جاتا ہے تو اس کا عمل منقطع ہو جاتا ہے، لہٰذا کسی انسان کے لیے یہ ممکن ہی نہیں کہ وہ اپنی وفات کے بعد کسی کے لیے دعا کرے حتیٰ کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے بھی یہ ممکن نہیں کہ آپ اپنی وفات کے بعد کسی کے لیے دعا فرمائیں۔ یہی وجہ ہے کہ حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے آپ کی وفات کے بعد آپ کی دعا کے وسیلے کو اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں پیش نہیں کیا۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے دور میں جب قحط سالی پیدا ہوئی تو انہوں نے اس طرح دعا کی:
[1] صحیح البخاری، الاستسقاء باب الاستسقاء فی المسجد الجامع، حدیث: ۱۰۱۴وصحیح مسلم، صلاۃ الاستسقاء باب الدعا ء فی الاستسقاء، حدیث: ۸۹۷۔
[2] صحیح البخاری، الطب، باب من اکتوی او کوی غیرہ… حدیث: ۵۷۰۵ وصحیح مسلم، الایمان، باب الدلیل علی دخول طوائف من المسلمین الجنۃ بغیر حساب، حدیث: ۲۲۰ واللفظ لہ۔
[3] سنن ابی داود، الوتر، باب الدعا بظہر الغیب، حدیث: ۱۵۳۴۔