کتاب: فتاوی ارکان اسلام - صفحہ 169
۴۔ عمل صالح کا وسیلہ: جیسا کہ ان تین لوگوں کا واقعہ ہے جو رات بسر کرنے کے لیے ایک غار میں آگئے تھے اور غار کے منہ پر ایک بھاری پتھر گر گیا تھا جسے وہ دور ہٹانے کی استطاعت نہیں رکھتے تھے، پھر ان میں سے ہر ایک نے اپنے عمل صالح کا وسیلہ پیش کیا تھا، ان میں سے ایک نے اپنے والدین کے ساتھ نیکی کے عمل صالح کا، دوسرے نے اپنی عفت وپاک دامنی کا اور تیسرے نے اپنے مزدور کو پوری پوری مزدوری دینے کا وسیلہ پیش کیا تھا۔ بہرحال ان میں سے ہر ایک نے اپنے عمل صالح کا وسیلہ پیش کرتے ہوئے کہا تھا: ’’اے اللہ! اگر یہ کام میں نے تیری رضا کے لیے کیا ہے تو تو ہماری اس مشکل کو دور فرما دے جس میں ہم مبتلا ہیں۔ اس سے وہ بھاری پتھر غار کے منہ سے ہٹ گیا تھا۔[1] چنانچہ یہ ہے عمل صالح کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں وسیلہ اختیار کرنے کی مثال۔
۵۔ اپنی عاجزی اور حالت زار کا وسیلہ پکڑنا: اپنے حال کو ذکر کر کے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں وسیلہ پیش کرے، یعنی اپنی حاجت وضرورت کو بیان کرے جیسا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اپنی حالت کو ذکر کرتے ہوئے یہ دعا کی تھی:
﴿رَبِّ اِنِّیْ لِمَآ اَنْزَلْتَ اِلَیَّ مِنْ خَیْرٍ فَقِیْرٌ﴾ (القصص: ۲۴)
’’اے میرے پروردگار! بے شک تو میری طرف جو بھی خیر نازل کرے، میں اس کا محتاج ہوں۔‘‘
اپنے حال کا ذکر کر کے انہوں نے وسیلہ پیش کیا تاکہ اللہ تعالیٰ ان پر اپنی نعمت کو نازل فرما دے۔ حضرت زکریا علیہ السلام کی یہ دعا بھی اسی اسلوب میں ہے:
﴿قَالَ رَبِّ اِنِّیْ وَ ہَنَ الْعَظْمُ مِنِّیْ وَ اشْتَعَلَ الرَّاْسُ شَیْبًا وَّ لَمْ اَکُنْ بِدُعَآئِکَ رَبِّ شَقِیًّا، ﴾(مریم: ۴)
’’انہوں نے کہا: اے میرے پروردگار! میری ہڈیاں (بڑھاپے کے سبب) کمزور ہوگئی ہیں اور میرا سر بڑھاپے (کی سفیدی) سے شعلہ مارنے لگا ہے اور اے میرے پروردگار! میں تجھ سے مانگ کر کبھی محروم نہیں رہا۔‘‘
! صحیح البخاری، البیوع، باب اذا اشتری شیئا لغیرہ بغیر اذنہ فرضی حدیث: ۲۲۱۵۔
وسیلے کی یہ تمام قسمیں جائز ہیں کیونکہ حصول مقصود کے لیے ان میں جن اسباب کو اختیار کیا گیا ہے وہ درست ہیں۔
۶۔ نیک آدمی کی دعا کا وسیلہ: اللہ تعالیٰ کی طرف کسی ایسے نیک آدمی کی دعا کا وسیلہ اختیار کیا جائے جس کی دعا کی قبولیت کی امید ہو۔ حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے عام اور خاص ہر قسم کی دعا کے لیے درخواست کیا کرتے تھے، جیسا کہ صحیحین میں حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث ہے: ’’ایک شخص جمعے کے دن اس وقت مسجد نبوی میں داخل ہوا جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ ارشاد فرما رہے تھے اس نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! مال ہلاک ہوگئے اور رستے منقطع ہوگئے ہیں، آپ اللہ تعالیٰ سے دعا فرمائیں کہ وہ ہم پر بارش نازل فرمائے۔ یہ سن کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دونوں ہاتھ اٹھا دئیے اور یہ دعا کی: (اللّٰہُمَّ اَغِثْنَا) ’’اے اللہ! ہمیں بارش سے نوازدے۔‘‘ آپ نے یہ دعا تین بار فرمائی اور جب آپ خطبہ مکمل فرمانے کے بعد منبر سے اترے تو آپ کی ڈاڑھی مبارک سے بارش کے قطرے گر رہے تھے پھر پورا ایک ہفتہ بارش ہوتی رہی اسی طرح دوسرے جمعے میں جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ ارشاد فرما رہے تھے تو اس شخص نے یا کسی اور نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! پانی سے مال ومویشی غرق ہوگئے اور گھر منہدم ہوگئے ہیں، آپ اللہ
[1] صحیح البخاری ،کتاب البیوع،باب اذا شتری شیئاً لغیرہ بغیر اذنہ فرضی حدیث:2215