کتاب: فتاوی ارکان اسلام - صفحہ 168
٭ خصوصی طور پر، یہ کہ اپنے خاص مطلوب کے لیے کسی مخصوص اور معین صفت کے وسیلے سے دعا کریں، جیسا کہ حدیث میں یہ دعا آتی ہے:
((اَللّٰہُمَّ بِعِلْمِکَ الْغَیْبِ وَقُدْرَتِکَ عَلَی الْخَلْقِ أَحْیِنِی مَا عَلِمْتَ الْحَیَاۃَ خَیْرًا لِی وَتَوَفَّنِی إِذَا عَلِمْتَ الْوَفَاۃَ خَیْرًا لِی)) (سنن النسائی، السہو، باب نوع آخر من الدعاء ح:۱۳۰۶۔)
’’اے اللہ! میں تیرے علم غیب اور مخلوق پر قدرت کے وسیلے سے تجھ سے یہ دعا کرتا ہوں کہ جب تک تیرے علم کے مطابق میرے لیے زندہ رہنا بہتر ہے، مجھے زندہ رکھ اور جب تیرے علم کے مطابق میرے لیے مرنا بہتر ہو تو تومجھے وفات عطاء فرمادے۔‘‘
اس دعا میں اللہ تعالیٰ کی صفت علم وقدرت کے وسیلے سے دعا کی گئی ہے اور یہ دونوں صفات مطلوب کے مناسب حال ہیں۔
اسی قبیل سے یہ بھی ہے کہ کسی صفت فعل کا وسیلہ اختیار کیا جائے مثلاً: (اللّٰہُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّعَلٰی آلِ مُحَمَّدٍ کَمَا صَلَّیْتَ عَلٰی اِبْرَاہِیْمَ وَعَلٰی آلِ اِبْرَاہِیْمَ) ’’اے اللہ! تو محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور آل محمد پر رحمت نازل فرما جس طرح تو نے ابراہیم اور آل ابراہیم پر رحمت نازل فرمائی تھی۔‘‘
۳۔ اللہ عزوجل کی ذات گرامی پر ایمان اور اس کے رسول پر ایمان کا وسیلہ: مثلاً: یوں کہے کہ ’’اے اللہ! میں تجھ پر اور تیرے رسول پر ایمان لایا ہوں، تو مجھے بخش دے یا مجھے اس کام کی توفیق عطا فرما دے۔‘‘ یا یہ کہے کہ ’’اے اللہ! میں تجھ پر اور تیرے رسول پر ایمان لانے کے وسیلے سے تجھ سے یہ سوال کرتا ہوں۔‘‘ حسب ذیل ارشاد باری تعالیٰ میں بھی وسیلے کی یہی صورت مذکور ہے:
﴿اِنَّ فِیْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ وَ اخْتِلَافِ الَّیْلِ وَ النَّہَارِ لَاٰیٰتِ لِّاُولِی الْاَلْبَابِ، الَّذِیْنَ یَذْکُرُوْنَ اللّٰہَ قِیٰمًا وَّ قُعُوْدًا وَّ عَلٰی جُنُوْبِہِمْ وَ یَتَفَکَّرُوْنَ فِیْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ ہٰذَا بَاطِلًا سُبْحٰنَکَ فَقِنَا عَذَابَ النَّارِ، رَبَّنَآ اِنَّکَ مَنْ تُدْخِلِ النَّارَ فَقَدْ اَخْزَیْتَہٗ وَ مَا لِلظّٰلِمِیْنَ مِنْ اَنْصَارٍ، رَبَّنَآ اِنَّنَا سَمِعْنَا مُنَادِیًا یُّنَادِیْ لِلْاِیْمَانِ اَنْ اٰمِنُوْا بِرَبِّکُمْ فَاٰمَنَّا رَبَّنَا فَاغْفِرْلَنَا ذُنُوْبَنَا وَکَفِّرْعَنَّا سَیِّاٰتِنَا وَ تَوَفَّنَا مَعَ الْاَبْرَارِ، ﴾ (آل عمران: ۱۹۳۔۱۹۵)
بے شک آسمانوں اور زمین کی پیدائش اور رات اور دن کے بدل بدل کر آنے جانے میں عقل والوں کے لیے نشانیاں ہیں، جو کھڑے اور بیٹھے اور لیٹے (ہر حال میں) اللہ کو یاد کرتے ہیں اور آسمانوں اور زمین کی پیدائش میں سوچ بچار (تدبر وتفکر)کرتے ہیں (وہ کہتے ہیں:) اے ہمارے پروردگار! تو نے یہ سب کچھ بے فائدہ پیدا نہیں کیا، تو پاک ہے، پس تو ہمیں آگ(جہنم) کے عذاب سے بچا۔ اے ہمارے پروردگار! ہم نے ایک ندا کرنے والے کو سنا جو ایمان کے لیے پکار رہا تھا کہ اپنے پروردگار پر ایمان لاؤ، تو ہم ایمان لے آئے، اے ہمارے پروردگار! ہمارے گناہ معاف فرمادے اور ہماری برائیوں کو ہم سے محو کر دے اور ہم کو دنیا سے نیک بندوں کے ساتھ اٹھا۔‘‘
اس آیت میں عقل والوں نے اللہ تعالیٰ کی ذات گرامی پر اپنے ایمان کے وسیلے سے یہ دعا کی کہ وہ ان کے گناہوں کو معاف فرما دے، ان کی خطاؤں سے درگذر کا معاملہ فرما ئے اور انہیں اپنے نیک بندوں کے ساتھ دنیا سے اٹھائے۔