کتاب: فتاوی ارکان اسلام - صفحہ 167
ربیع قلبی َََ۔۔۔۔۔۔َ))الخ (مسند احمد: ۱/۳۹۱۔)
’’اے اللہ! میں تیرا بندہ ہوں، تیرے بندے کا بیٹا ہوں، تیری باندی کا بیٹا ہوں، میری پیشانی تیرے ہاتھ میں ہے، مجھ پر تیرا ہی حکم چلتا ہے، میرے بارے میں تیرا فیصلہ انصاف پر مبنی ہے، میں تیرے ہر اس نام کے وسیلے سے تجھ سے دعا کرتا ہوں جو تو نے اپنی ذات پاک کا نام رکھا ہے یا جو تو نے اپنی کتاب میں نازل کیا ہییا جو تو نے اپنی مخلوق میں سے کسی کو بھی سکھایا ہے یا جسے تو نے علم غیب میں اپنے ہی پاس رکھنے کو ترجیح دی ہے کہ تو قرآن کریم کو میرے لئے بہاردل بنادے۔‘‘
اس دعا میں عمومی طور پر اللہ تعالیٰ کے اسمائے حسنیٰ کو بطور وسیلہ اختیار کیا گیا ہے: (اسْئَلُکَ بِکُلِّ اسْمٍ ہُوَ لَکَ سَمَّیْتَ بِہٖ نَفْسَکَ) ’’میں تجھ سے تیرے ہر اس اسم پاک کے وسیلے سے سوال کرتا ہوں جو تیرا نام ہے اور جس سے تو نے اپنی ذات گرامی کو موسوم کیا ہے۔‘‘
٭ خصوصی طور پر وہ بھی اس طرح کہ انسان اپنی کسی خاص حاجت کے لیے اللہ تعالیٰ کے کسی ایسے خاص اسم پاک کے وسیلے کو اختیار کرے جو اس حاجت کے مناسب حال ہو جیسا کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث میں ہے کہ جب انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عرض کیا کہ آپ مجھے کوئی ایسی دعا سکھا دیں جسے میں نماز میں مانگا کروں تو آپ نے فرمایا یہ دعا مانگا کرو:
((اَللّٰہُمَّ إِنِّی ظَلَمْتُ نَفْسِی ظُلْمًا کَثِیرًا وَّلَا یَغْفِرُ الذُّنُوبَ إِلَّا أَنْتَ فَاغْفِرْ لِی مَغْفِرَۃً مِنْ عِنْدِکَ وَارْحَمْنِی إِنَّک أَنْتَ الْغَفُوْرُ الرَّحِیمُ)) (صحیح البخاری، الاذان، باب الدعاء قبل السلام، ح: ۸۳۴ وصحیح مسلم، الذکر والدعاء، باب الدعوات والتعوذ، ح: ۲۷۰۵))
’’اے اللہ! بے شک میں نے اپنی جان پر حدسے زیادہ ظلم کیا ہے اور تیرے سوا کوئی گناہ نہیں بخش سکتا، پس تو اپنی خاص مغفرت سے میرے سارے گناہ معاف فرما دے اور مجھ پر رحم فرما، بے شک تو ہی(غفور) یعنی حدسے زیادہ مغفرت کرنے والا اور نہایت رحم وکرم کا معاملہ فرمانے والا ہے۔‘‘
اس دعا میں اللہ تعالیٰ کے دو ایسے پاک ناموں کے وسیلے کے ساتھ مغفرت و رحمت کو طلب کیا گیا ہے جو اس مطلوب کے مناسب حال ہیں اور وہ ہیں ’’غفور‘‘ اور ’’رحیم‘‘۔
وسیلہ کی یہ قسم حسب ذیل ارشاد باری تعالیٰ میں داخل ہے:
﴿وَ لِلّٰہِ الْاَسْمَآئُ الْحُسْنٰی فَادْعُوْہُ بِہَا﴾ (الاعراف: ۱۸۰)
’’اور اللہ کے لئے (أسماء حسنی) ہیں، سو تم اس کو اس کے ناموں سے پکارا کرو۔‘‘
یہاں پکارنے کا لفظ دعا کرنے اور عبادت وریاضت کرنے میں سے دونوں معنوں کو شامل ہے۔
۲۔ اللہ تعالیٰ کی صفات کے ساتھ وسیلہ: اسماء کے ساتھ وسیلے کی طرح اس کی بھی دو قسمیں ہیں:
٭ عمومی طور پر، مثلاً: آپ یہ کہیں کہ ’’اے اللہ! میں تیرے اسمائے حسنیٰ اور صفات أعلیٰ کے وسیلے سے تجھ سے یہ سوال کرتا ہوں‘‘ اور پھر اس کے بعد اپنے مطلوب کو ذکر کریں۔