کتاب: فتاوی ارکان اسلام - صفحہ 154
ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰہِ اُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ لِّمَنْ کَانَ یَرْجُوا اللّٰہَ وَ الْیَوْمَ الْاٰخِرَ وَ ذَکَرَ اللّٰہَ کَثِیْرًا، ﴾ (الاحزاب: ۲۱) ’’یقینا تمہارے لیے رسول اللہ (کی ذات) میں بہترین نمونہ ہے۔ ہر اس شخص کے لیے جو اللہ (سے ملاقات) اور یوم آخرت کی امید رکھتا ہو اور کثرت سے اللہ کا ذکر کرتا ہو۔‘‘ اور ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿قُلْ اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْکُمُ اللّٰہُ﴾ (ال عمران: ۳۱) ’’(اے پیغمبر! لوگوں سے) کہہ دو کہ اگر تم اللہ کو دوست رکھتے ہو تو میری پیروی کرو، اللہ بھی تمہیں دوست رکھے گا۔‘‘ تمام مسلمانوں کے لیے یہ واجب ہے کہ وہ ولایت کا دعویٰ کرنے والے کے اعمال کا کتاب وسنت کی روشنی میں جائزہ لیں۔ اگر وہ کتاب وسنت کے مطابق ہوں تو امید کی جا سکتی ہے کہ وہ اولیاء اللہ میں سے ہو اور اگر وہ کتاب وسنت کے مخالف ہوں تو پھر ایسا شخص اولیاء اللہ میں سے ہرگز ہرگز نہیں ہوسکتا۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں اولیاء اللہ کی پہچان کے لیے مبنی برعدل وانصاف یہ میزان اور کسوٹی بیان فرما دی ہے: ﴿اَلَآ اِنَّ اَوْلِیَآئَ اللّٰہِ لَا خَوْفٌ عَلَیْہِمْ وَ لَا ہُمْ یَحْزَنُوْنَo الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ کَانُوْا یَتَّقُوْنَo﴾ (یونس: ۶۲۔۶۳) ’’سن لو! بے شک جو اللہ کے دوست ہیں ان کو نہ کچھ خوف ہوگا اور نہ وہ غم ناک ہوں گے۔ (یعنی) وہ جو ایمان لائے اور پرہیزگاری کواپنا شیوہ زندگی بناکر ڈرتے اورخوف کھاتے رہے۔‘‘ جو شخص مومن اور متقی ہو وہ اللہ کا ولی ہوگا اور جو مومن اور متقی نہ ہو وہ اللہ تعالیٰ کا ولی ہرگز نہیں ہو سکتا۔ اگر اس میں ایمان و تقویٰ کا کچھ حصہ ہو تو اس میں ولایت کا بھی کچھ حصہ ہو سکتا ہے لیکن کسی شخص کے بارے میں پورے وثوق کے ساتھ ہم کچھ نہیں کہہ سکتے بلکہ عمومی طور پر ہی یہ کہا جا سکتا ہے کہ جو مومن ومتقی ہو وہ اللہ کا ولی بھی ہوگا۔ معلوم ہونا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ بسا اوقات ان جیسے امور کے ساتھ انسان کی آزمائش بھی کرتا ہے۔ انسان کسی قبر کے ساتھ و ابستہ ہو کر صاحب قبر سے دعا کرتا یا اس کی مٹی کو تبرک کے طور پر لے لیتا ہے اور بظاہر اس سے اس کا مطلوب حاصل بھی ہو جاتا ہے، لیکن درحقیقت یہ بات اللہ تعالیٰ کی طرف سے آزمائش ہوتی ہے کیونکہ اس بارے میں ہم یقین ہے کہ کوئی صاحب قبر دعا قبول نہیں کر سکتا اور کسی قبر کی مٹی کسی تکلیف کو دور نہیں کر سکتی اور نہ ہی کوئی نفع پہنچا سکتی ہے۔ ہمیں یہ باتیں اس لیے معلوم ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے فرمادیا ہے: ﴿وَمَنْ اَضَلُّ مِمَّنْ یَدْعُوا مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ مَنْ لَا یَسْتَجِیْبُ لَہٗ اِلٰی یَوْمِ الْقِیٰمَۃِ وَہُمْ عَنْ دُعَائِہِمْ غَافِلُوْنَ، وَاِذَا حُشِرَ النَّاسُ کَانُوْا لَہُمْ اَعْدَائً وَّکَانُوْا بِعِبَادَتِہِمْ کٰفِرِیْنَ، ﴾ (الاحقاف: ۵۔۶) ’’اور اس شخص سے بڑھ کر کون گمراہ ہو سکتا ہے جو ایسے کو پکارے جو قیامت تک اسے جواب نہ دے سکے اور اس کو ان کے پکارنے ہی کی خبر نہ ہو اور جب لوگ جمع کیے جائیں گے تو وہ ان کے دشمن ہوں گے اور وہ ان کی پرستش سے انکار کریں گے۔‘‘